Friday, 22 November 2024
  1. Home/
  2. Prof. Riffat Mazhar/
  3. Jab Laad Chalay Ga Banjara

Jab Laad Chalay Ga Banjara

تاریخ کی گواہی مسلمہ، لگی لپٹی رکھے بغیر سچ اُگل دے۔ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کورونا کا شکار ہوئے تو زبانِ خلق پہ دبنگ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے لیے تحسین کے کلمات نکلے۔ وقاراحمد سیٹھ آمر پرویزمشرف کے خلاف تفصیلی فیصلے کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ اُنہوں نے شِق نمبر 66 میں لکھا "ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ مفرور مجرم کو گرفتار کرنے کی بھرپور کوشش کریں اور یقینی بنائیں کہ اُنہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ مُردہ پائے جائیں تو اُن کی لاش کو ڈی چوک اسلام آباد تک گھسیٹا جائے اور تین دنوں تک لٹکایا جائے"۔ جسٹس وقاراحمد کے فیصلے سے بنچ کے باقی 2 ججوں نے اختلاف کیا۔ جسٹس شاہد کریم نے باقی تمام فیصلے سے تو اتفاق کیا مگر شِق نمبر 66 سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ اُنہیں سزا سے تو اتفاق ہے لیکن پیرا 66 سے نہیں۔ جسٹس نذراکبر نے پورے فیصلے سے ہی اختلاف کیا۔ اِس فیصلے پر پورے پاکستان میں لے دے بھی بہت ہوئی اور کہا گیا کہ عدل کی تاریخ میں ایسی سزا کا وجود تک نہیں۔ شاید جسٹس وقار احمد سیٹھ کے ذہن میں برطانوی آمر اولیور کرامویل ہو۔

اولیور کرامویل نے 1653ء میں برطانوی حکومت پربزورِبازو قبضہ کیا۔ قبضے سے چند سال پہلے وہ برطانوی بادشاہ چارلس اول کو پھانسی دلوانے میں بھی پیش پیش تھا۔ 1658ء میں کرامویل ملیریا کا شکار ہوکر مرگیا۔ اُسے پورے قومی اعزاز کے ساتھ ویسٹ منسٹر کے شاہی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ کرامویل کی موت کے دو سال بعد چارلس اول کا بیٹا چارلس دوم بادشاہ بنا تو اُس نے اپنے باپ کی پھانسی کا بدلہ لینے کی ٹھانی۔ اُس کے حکم پر 30 جنوری 1661ء کو کرامویل کی قبر کھود کر لاش نکالی گئی اور اُس کے ڈھانچے کو لندن کے چوک میں پھانسی دی گئی۔ بعد ازاں لاش کی باقیات کو تو دفن کر دیا گیا لیکن کرامویل کی کھوپڑی اگلے چوبیس سال تک ویسٹ منسٹر ہال کے باہر کھمبے سے لٹکتی رہی۔ کرامویل کی طرح پرویز مشرف نے بھی بزورِبازو میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹا۔ شاید اِسی لیے جسٹس وقار احمد سیٹھ نے پرویزمشرف کے لیے ایسا فیصلہ لکھا۔ اِس فیصلے سے لاکھ اختلاف سہی لیکن دبنگ وقاراحمد سیٹھ کا یہ فیصلہ عدل کی تاریخ میں یادگار رہے گا۔

چند دن پہلے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک بھی کورونا کا شکار ہوکر فوت ہوئے۔ اُن کی وفات پر قوم کو میاں نوازشریف کے خلاف کیا گیا وہ فیصلہ یاد آگیا جس کے بارے میں ارشد ملک نے خود ہی اقرار کیاکہ اُس نے دباوَ میں آکر فیصلہ کیا۔ اُن کے اقراری بیان کی آڈیو، ویڈیو مریم نواز نے پریس کانفرنس کے سامنے رکھ کر یہ سوال اُٹھایا کہ جب احتساب عدالت کا جج خود ہی اعتراف کر رہا ہے کہ اُس نے دباوَ میں آکر فیصلہ دیا تو پھر میاں نوازشریف کو دی جانے والی سزا کیسے درست ہو سکتی ہے؟ ۔ اِس سوال کا جواب ابھی تک نہ تو حکمرانوں کی طرف سے آیا نہ عدلیہ کی طرف سے۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو اِسی ویڈیو کی بنیاد پر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا لیکن تاحال میاں نوازشریف کی سزا معطل نہیں ہوئی۔ ارشد ملک کا فیصلہ بھی عدل کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا لیکن اچھے لفظوں میں نہیں۔ حیرت ہے کہ اِس فانی زندگی میں کوئی شخص اپنی آخرت پر سوالیہ نشان کیسے چھوڑ سکتا ہے جبکہ ہر کسی کو معلوم کہ "سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا"۔ یہ بنجارا تو اب کورونا کی صورت میں ہر دَر کو کھٹکٹا رہا ہے، ہر گھر میں جھانک رہا ہے، ہر گلی اور ہر بازار میں اپنے شکار کی تلاش میں ہے لیکن پھر بھی ہم موت کو بَرحق ضرور مانتے ہیں لیکن دوسروں کے لیے۔ اپنے لیے اگر موت کو دیکھتے بھی ہیں تو دور، کہیں بہت دور۔ حالانکہ 2020ء میں آدم خور کورونا 15 لاکھ سے زیادہ زندگیاں نگل چکا اور 7 کروڑ سے زیادہ انسان اِس کی وحشت کا شکار ہو چکے۔ نظر نہ آنے والا یہ عفریت چھوٹا دیکھتا ہے نہ بڑا، امیر دیکھتا ہے نہ غریب۔ ہر شخص اِس کی پہنچ میں۔ ساری اکڑ نکل چکی، سارے غرور خاک ہوئے، ساری رنگینیاں ماند ہوئیں، معیشت برباد، شاہ گدا، گدا بے آسرا، فیکٹریاں بند، دفتر بند، سکول وکالج بند اور گلشن کا سارا کاروبار بند۔ کلب، ریسٹورنٹ، ہوٹل، شادی ہال اور سیرگاہیں بے بسی کی تصویر۔ یوں لگے کہ جیسے "اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا"۔

پاکستان میں کورونا مارچ 2020ء میں آیا۔ اُس وقت گرمیوں کا موسم شروع ہو رہاتھا۔ پھر موسم گرم سے گرم تر ہوتا چلا گیا اور کورونا کا اثر کم سے کم تر وگرنہ ہمارے حکمران تو ایسے جو یہ کہیں "سردیاں آئیں گی تو ڈینگی خودبخود ختم ہو جائے گا"۔ یہی حال کورونا کا گرمیوں میں ہوا جسے محض اللہ کا فضل ہی کہا جا سکتاہے جسے حکمران اپنے کھاتے میں ڈال کر بغلیں بجاتے رہے۔ اِس کے باوجود پاکستان میں کورونا 7 ہزار زندگیاں نگل گیا۔ اب کورونا کی دوسری لہر تیزی سے جاری۔ اِس خطرناک لہر کا یہ عالم کہ جن کے ٹسٹ منفی آ رہے ہیں، وہ بھی کورونا کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں جہاں ایکٹو کیسز محض ساڑھے پانچ ہزار رہ گئے تھے، اب چند ہی دنوں میں پچاس ہزار سے بھی اوپر جا رہے ہیں مگر حکمرانوں کی "وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے"۔ اُن کا سارا زور اپوزیشن پر۔ ایس او پیز کا اعلان ضرور مگر عمل درآمد مفقود۔ اُدھر اپوزیشن بھی "ابھی یا کبھی نہیں " پر عمل پیرا۔ وہ ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور حکمران مذاکرات کی میز پر آنا اپنے لیے توہین کا باعث سمجھتے ہوئے۔ وزیرِاعظم صاحب کی ضداپنی جگہ لیکن جہاں انسانی زندگیوں کا سوال ہووہاں انانیت کے بتوں کو توڑنا ہی بہتر۔

مان لیا کہ خودکشی سے بہتر آئی ایم ایف کہ آپ ہمارے "ہیرو"ہو جس نے ہمیں دنیا کا مہنگا ترین ورلڈ کپ لا کر دیا۔ تسلیم کہ آپ نے سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے ملازم کے حوالے کر دیا کہ شاید اِس کے بغیر قرضے کا حصول ناممکن ہوتا۔ بجا کہ امداد کے حصول کا قرینہ، طریقہ اورسلیقہ آپ سے بہتر کوئی نہ جانے کہ اِس کے پیچھے آپ کاتیس سالہ تجربہ لیکن آپ سے ایک بھول ہوئی کہ جو قرض دیتا ہے اُس کے کچھ مطالبات بھی ہوتے ہیں اور وہ مطالبات پورے نہ ہونے پر ناراض بھی ہو سکتا ہے۔ غالب نے کہا

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دِن

اب یہی فاقہ مستی رنگ لا رہی ہے اور اپنے بھی خفا تجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش۔ اپوزیشن مرنے مارنے کا تیار اور اتحادیوں کے ہاتھوں میں مطالبات کی طویل فہرست۔ آپ نے 17 وزراء کی کابینہ کا اعلان کرکے 50 سے زائد اپنے گرد اکٹھے کر لیے کہ اتحادیوں کو بھی خوش کرنا تھا۔ پھر بھی "نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں "۔ اب کبھی وزیروں مشیروں پہ غضب کی تلوار گرتی ہے تو کبھی بیوروکریسی زیرِ عتاب۔ اکھاڑ پچھاڑ کا ایسا تماشا لگا ہے کہ کبھی دیکھا نہ سُنا۔ مہنگائی کسی صورت قابو میں نہیں آرہی۔ خلقِ خُدا تنگ اور سڑکوں پہ نکلنے کو تیار، اُس پر کورونا کے وار۔ آخر جائیں تو جائیں کہاں۔ آپ کے وزیر مشیر تو بیگ اُٹھا کر اپنے اپنے وطن کی راہ لیں گے لیکن ہمارا تو یہیں جینا، یہیں مرنا۔ اگر کورونا کے ہاتھوں نہ مرے تو بھوک کے ہاتھوں مر جائیں گے۔ آپ اپنا "نیا پاکستان" سینت سنبھال کر رکھیں اور خُدارا ہ میں ہمارا پُرانا پاکستان لوٹا دیں کہ اِس میں آپ کا بھلا ہو نہ ہو، قوم کا بہرحال بھلا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran