خزاں چمن سے ہے جاتی۔ خواجہ حیدرعلی آتش نے کہا
ہوائے دَورِ مئے خوشگوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی، بہار راہ میں ہے
ہم کبھی مایوس نہیں ہوئے کہ دینِ مبیں کے مطابق مایوسی کفرہے۔ ہم تو اُس وقت بھی مایوس نہیں تھے جب ہمہ وقت ڈیفالٹ کا خطرہ سَر پر منڈلاتا رہتاتھا اور گلی گلی میں شور تھا کہ پاکستان سری لنکا بننے کوہے۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب نیا پاکستان بنانے والے آئی ایم ایف سے کیاگیا معاہدہ توڑ چکے تھے اور پی ڈی ایم سڑکوں پر تھی۔ اُس وقت بھی اگر پریشانی تھی توصرف یہ کہ دَورِ خزاں کب ختم ہوگا؟ یہ ملک ہم نے رَب کے نام پر حاصل کیاتھا اور وہی لم یزل اِس کا محافظ بھی ہے اِس لیے مایوسی کا کوئی جواز نہیں البتہ اللہ کے فرمان کے عین مطابق رَبِ علیم وخبیر کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت خود بدلنے کو تیارنہ ہو۔
اب ہماری اُمیدوں کے چراغ یوں روشن ہوئے کہ اسٹیبلشمنٹ ملکی بدحالی کا مکمل ادراک کرچکی اور عدلیہ کے فیصلے بھی آئین وقانون کے عین مطابق ہونے لگے۔ اعلیٰ ترین عدلیہ نے تسلیم کرلیا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اورآئین سازی کاحق صرف اُسی کوہے۔ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس جسے سابق چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال بلانے کوتیار نہیں تھے اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں منعقد ہوچکا۔ اجلاس میں جسٹس مظاہرعلی نقوی کو شوکازنوٹس جاری کرتے ہوئے دیگر ججز کے متعلق زیرِالتوا درخواستوں کا جائزہ بھی لیاگیا۔ اُمید بندھ چلی ہے کہ اب دیگر ججزکا بھی کڑا احتساب ہوگا۔ اب چونکہ دھرتی ماں کی تعمیروترقی کی راہیں متعین ہوچکیں اِس لیے ہم نے سوچا کہ چلیں ہلکاپھُلکا کالم لکھتے ہوئے اُن اصحاب کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں جنہوں نے نئے پاکستان کی تشکیل میں اپنی ساری توانائیاں صرف کردیں۔
ہماری نگاہِ انتخاب سب سے پہلے شیخ رشید احمد پر پڑی۔ وجہ یہ کہ 8 بار وفاقی وزیر رہنے والے شیخ صاحب کا تجربہ ہی بہت ہے۔ ویسے بھی اُن کی پیشین گوئیوں سے استفادہ کیاجا سکتاہے لیکن اِس کا طریقہ یہ ہے کہ شیخ صاحب جو پیشین گوئی کریں، سمجھ لیں کہ اُس کا اُلٹ ہونے کوہے۔ ہم نے تو کئی بار اُنہیں مشورہ دیا کی چھوڑیں سیاست ویاست کو اور لال حویلی کے "تھڑے" پر طوطافال شروع کردیں، کاروبار چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں۔
شیخ صاحب نے ہماری اِس ارسطوانہ تجویزکو تو گھاس نہیں ڈالی البتہ یہ ضرور ہوا کہ اُن سے لال حویلی بھی چھِن گئی۔ اب اگر اُنہوں نے ہماری تجویز کو عملی جامہ پہنانا ہے تو اُنہیں کوئی اور "تھڑا" تلاش کرنا ہوگا۔ ہم شیخ صاحب کی اِس خوبی کے بہرحال معترف ہیں کہ وہ صرف بَرسرِاقتدار جماعت کے دست وبازو بننا ہی پسند کرتے ہیں۔ زمانہئ ظالب علمی میں وہ 10 روپے فی مخبری کے حساب سے ضیاء الحق کومخبریاں دیا کرتے تھے، پھروہ میاں نوازشریف کے دِل کے جانی بن گئے۔ جب پرویزمشرف نے میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹا تو شیخ صاحب پھُدک کر اُس کے چرنوں میں آن گرے اور پرویزمشرف کی ماں کو اپنی ماں کادرجہ دے دیا۔
پرویزمشرف نے ق لیگ بنائی تو موصوف وہاں جلوہ افروز ہوئے۔ جب 2008ء میں جمہوری دَور کی آمدآمد تھی تو شیخ صاحب نے "عوامی مسلم لیگ" نامی اپنی سیاسی جماعت بنالی وجہ یہ کہ کوئی سیاسی جماعت اُن کی خدمات سے مستفید ہونے کو تیار نہیں تھی۔ اِس جماعت کے وہ خودہی مدارالمہام ہیں کیونکہ یہ "وَن مین شو" ہے۔ یہ اُنہی دنوں کی بات ہے جب عمران خاں نے کہاتھا "میں شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں"۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ یہی "چپڑاسی" عمران خاں کے چرنوں کی دھول بن کرتحریکِ انصاف کے ہرجلسے میں نمودار ہونے لگا۔ اُس زمانے میں لوگ اُنہیں"جَماں جنج نال" کہاکرتے تھے۔
9 مئی کے واقعات کے بعدموت کو اپنی محبوبہ، ہتھکڑی کو اپنا زیور اور جیل کواپنا سُسرال کہنے والے شیخ رشید یوں پھُر ہوئے جیسے گدھے کے سَرسے سینگ۔ جب نمودار ہوئے تو کہنے لگے کہ وہ چِلّہ کاٹنے گئے تھے۔ شنید ہے کہ ایک چِلّہ بُشریٰ بی بی نے عمران خاں کو جیل سے نکلوانے کے لیے بھی کاٹاتھا لیکن ہوا یہ کہ بی بی کے موکل عمران خاں کو لانے کی بجائے میاں نوازشریف کو لندن سے لے آئے۔ یہ موکلوں کی غلط فہمی ہی سہی لیکن میاں نوازشریف کو بہرحال بی بی کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اب ایک چلّہ شیخ رشید بھی کاٹ آئے ہیں، دیکھتے ہیں کہ لال حویلی کے چھِن جانے کے بعد اور کیا کچھ چھیناجاتا ہے کیونکہ آجکل موکلوں کو جوحکم دیا جاتا ہے وہ اُس کا اُلٹ کرتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے تازہ بہ تازہ صدر چودھری پرویزالٰہی پر "آبیل مجھے مار" جیسا محاورہ فِٹ بیٹھتا ہے۔ اُنہیں اتحادی جماعتوں نے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا متفقہ اُمیدوار نامزد کیا اور دُعائے خیر کے بعد مٹھائی بھی تقسیم کی گئی۔ پھر اچانک چودھری صاحب کے مَن میں پتہ نہیں کیا سمایا کہ وہ اُسی رات مونس الٰہی کو ساتھ لے کر بھاگم بھاگ بنی گالہ میں عمران خاں کے دَرِدولت پہنچ گئے۔ عمران خاں نے اُنہیں تحریکِ انصاف کی طرف سے وزارتِ اعلیٰ کا اُمیدوار نامزد کردیا۔ اِس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔
9 مئی کے سانحے کے بعد شامتِ اعمال نے چودھری صاحب کو یوں گھیراکہ اُنہیں لینڈ کروزر میں گھر سے فرار ہوتے ہوئے پولیس نے دھر لیا۔ تب سے اب تک وہ کئی ضمانتیں ہونے کے باوجود جیل میں ہیں کہ جونہی کسی مقدمے میں اُن کی ضمانت ہوتی ہے بکتربند گاڑی جیل کے سامنے پہنچ جاتی ہے اور وہ کسی دوسرے مقدمے میں دھر لیے جاتے ہیں۔ چودھری صاحب 9 مئی کے واقعات میں براہِ راست ملوث تو نہیں تھے لیکن تحریکِ انصاف کے صدر توہیں۔ وہ تو اِس صدارتی کمبل سے جان چھڑانے کے لیے پریس کانفرنس کرنا چاہتے ہیں لیکن زورآوروں کے ہاں اُن کے لیے "یہ سہولت میسر نہیں"۔ چودھری صاحب تو زورآوروں کے حضور "کُرلاتے" رہتے ہیں کہ
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں
لیکن اب چودھری صاحب اور شیخ رشیدپر گیٹ نمبر 4 کے دروازے شاید ہمیشہ کے لیے بند ہوچکے ہیں۔ اِس لیے اِن اصحاب کو ہمارا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا
ویسے ڈرتے ڈرتے عرض ہے کہ اگر عثمان ڈار، فرخ حبیب، عمران اسماعیل، پرویزخٹک، شیریں مزاری، عامرکیانی، علی زیدی، ملیکہ بخاری، جمشید چیمہ، مسرت جمشیدچیمہ، گلوکار ابرارالحق، فیاض الحسن چوہان اور فوادچودھری جیسے کئی بڑھک بازوں کو پریس کانفرنس کی سہولت میسرہے تو پھر ہمارے "معصوم" چودھری پرویزالٰہی کو کیوں نہیں؟ آخر وہ چودھری تو ہیں ہی اور ڈیرے دار ہونے کے علاوہ روٹی شوٹی بھی خوب کھلاتے ہیں۔ کیا اُن کا اتنا حق بھی نہیں بنتاکہ وہ اپنے بیٹے مونس الٰہی کے غلط مشوروں پر معافی شعافی ہی مانگ لیں۔
چودھری صاحب تو بڑھک بازنہیں لیکن عثمان ڈار تو سَرپر پٹی باندھ کر ہیرو بنا پھرتا تھا، فرخ حبیب کی بڑھکیں پورے پنجاب میں گونجا کرتی تھیں اور عمران اسماعیل کا ترانہ "روک سکو تو روک لو، تبدیلی آئی رے" ہرجلسے میں گونجا کرتاتھا پھر اِن سب اور اِن جیسے دوسروں کے لیے عام معافی کیوں۔