جب دو پہلوان اکھاڑے میں اُترتے ہیں تو ایک کی ہار ہوتی ہے اور دوسرے کی جیت لیکن پاکستان کے سیاسی اکھاڑے کی تاریخ عجب کہ یہاں پہلوان ہمیشہ سُرخرو ہوتے ہیں اور ہار صرف عوام کی ہوتی ہے۔ یہ ایسی "نوراکُشتی" ہے جس میں نعرے، دعوے اور وعدے بہت مگر نتیجہ صفر۔ 70 برسوں سے اقتدار کی "میوزیکل چیئر" کے گرد گھومنے والا ٹولاوہی جسے کبھی لوٹا کہا جاتا ہے تو کبھی گدھا یا گھوڑا۔ ضمیر فروشی کی اِس منڈی میں سب بِکتاہے اورقوم "ٹُک ٹُک دیدم، دَم نہ کشیدم"۔ اِس منڈی کا سب سے بڑا خریدار کپتان جس کا فرمان کہ اُسے "جیتنے والے گھوڑے" درکار لیکن پیپلزپارٹی اور نوازلیگ بھی اِس سے مبّرا نہیں۔ حالیہ سینٹ انتخابات میں مریم نواز نے کہا کہ الیکشن میں پیسہ نہیں، نوازلیگ کا "ٹکٹ" چلا۔ گویا ضمیرفروشوں نے آمدہ انتخابات میں نوازلیگ کے ٹکٹ کے وعدے پر یوسف رضاگیلانی کو عددی کمی کے باوجود سینٹر منتخب کروایا۔ سوال یہ ہے کہ جب یہی ضمیرفروش نوازلیگ کے ٹکٹ کے سہارے پارلیمنٹ میں پہنچیں گے تو کیا اُن سے بھلائی کی توقع کی جا سکتی ہے؟
سیاسی بساط کے ماہر کھلاڑی آصف زرداری کے کارنامے بھی اظہرمِن الشمس۔ مارچ 2018ء میں چیئرمین سینٹ کے اُمیدوار صادق سنجرانی تھے اور ڈپٹی چیئرمین کے اُمیدوار پیپلزپارٹی کے سلیم مانڈی والا۔ اُس وقت سینٹ میں نوازلیگ کی واضح برتری تھی لیکن اُس کے راجہ ظفرالحق کو صرف 46 ووٹ ملے اور صادق سنجرانی 57 ووٹ لے کر چیئرمین سینٹ منتخب ہوگئے۔ اِن انتخابات میں پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف ایک صفحے پر تھیں۔ آج پیپلزپارٹی اور نوازلیگ ایک صفحے پر ہیں اور وہی صادق سنجرانی تحریکِ انصاف کے چیئرمین سینٹ کے اُمیدوار۔ ہمارے صادق سنجرانی بھی بڑے "خاصے" کی شے ہیں۔ وہ 1998ء میں میاں نوازشریف کے وزیرِاعظم سیکریٹریٹ کے شکایت سیل کے کوارڈینیٹرتھے اور وہ نوازحکومت کا سختہ اُلٹنے تک اِس سیٹ پر براجمان رہے۔ جب 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو یوسف رضاگیلانی نے اُنہیں وزیرِاعظم شکایت سیل کا انچارج بنادیا اور وہ 5 سال تک اِس سیٹ کے مزے لوٹتے رہے۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ 2018ء میں چیئرمین سینٹ کے انتخاب سے پہلے صادق سنجرانی نے اِس بنیاد پر اُن سے مدد مانگی کہ وہ چیئرمین بننے کے بعد پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔ اِس کے لیے وہ قُرآن پر حلف دینے کو تیار تھے لیکن ہم نے اُنہیں یہ کہتے ہوئے حلف دینے سے منع کر دیا کہ اُن پر اعتبار ہے۔ بعد میں سنجرانی اپنے وعدے سے مکر گئے اور اب وہی صادق سنجرانی حکومتی اُمیدوار کے طور پر دوبارہ چیئرمین سینٹ بن چکے لیکن سینٹ کے اِس انتخاب میں ملک کی جو بدنامی ہوئی اُس کا ازالہ شاید عشروں تک نہ ہوسکے۔ بقول پی ڈی ایم ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی گئی لیکن ایک دفعہ پھر چوری پکڑی گئی۔ پیپلزپارٹی کے مصطفیٰ نوازکھوکھر نے بتایا کہ اُنہیں اور مصدق ملک کو شیری رحمٰن نے کہا کہ پولنگ سے پہلے سینٹ ہال میں جا کر دیکھیں کہ کہیں پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرے تو نہیں لگے۔
مصطفیٰ نواز اور مصدق ملک نے جاکر پولنگ بوتھ دیکھا تو ٹی وی سکرین کے نیچے ایک کیمرہ لگا ہوا تھا جسے ٹیپ سے چپکایا گیا تھا۔ جب اُس کیمرے کو کھینچا تو اُس کے پیچھے ایک اور کیمرہ بھی موجود تھا۔ اِن دونوں کیمروں کا رُخ پولنگ بوتھ کے اندر تھا، ایک کیمرے کا رُخ ووٹر کے چہرے کی طرف اور دوسرے کا بیلٹ پیپر کے عین اوپر۔ مصدق ملک کا کہنا ہے کہ پولنگ بوتھ میں نصب سامان کل سوا ایک بجے لگایا گیا تھااِس لیے یہ کیمرے اور مائیک اُسی وقت نصب کیے گئے ہوں گے۔ اُنہوں نے مذید کہا کہ پولنگ بوتھ میں ایک ڈیوائس بھی لگی ہوئی تھی جس کے ساتھ ایک تار لٹکی ہوئی تھی جبکہ ایک باریک سوراخ اُسی جگہ بنا ہوا تھا جہاں بیلٹ پیپر پر مہر لگنی تھی۔ بعد ازاں جب پولنگ بوتھ کو اُکھاڑا گیا تو بقول احسن اقبال اُس میں 6 کیمرے لگے ہوئے تھے۔ تحریکِ انصاف کے وزیرِاطلاعات شبلی فراز نے میڈیا ٹاک میں جو کچھ کہا اُس پر صرف ہنسی ہی آسکتی ہے۔ شبلی فراز نے کہا یہ کیمرے دراصل پی ڈی ایم نے لگائے اور پھر خود ہی تلاش کر لیے ورنہ اُنہیں کیسے پتہ چلا کہ پولنگ بوتھ میں خفیہ کیمرے لگے ہیں۔ شبلی فراز کی اِس نرالی منطق پر اُن سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ حکومت اُن کی، سینٹ کا چیئرمین اُن کا اور سینٹ کی سیکیورٹی اُن کے پاس، ابھی 2 دن پہلے سینٹ کانیا سیکیورٹی انچارج بھی تعینات کیا گیا، پھر پی ڈی ایم سینٹ حال میں بمعہ کیمرے داخل کیسے ہوگئی؟ اگر شبلی فراز کے اِس بیان کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر جو حکومت ایک سینٹ ہال کو نہیں سنبھال سکتی، ملک کو کیا خاک سنبھالے گی؟ یہ سب کچھ کس نے کیا اور کِس کی ایماء پر کیا، اِس کا بہترین حل تو سینٹ کے اندر اور باہر لگے سی سی ٹی وی کیمرے ہیں جن سے صورتِ حال عیاں ہو سکتی ہے لیکن پی ڈی ایم کو خطرہ ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں سے چھیڑ چھاڑ کر کے ثبوت مٹانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ پی ڈی ایم تو اِس معاملے میں بہت متحرک دکھائی دی لیکن حکومت کی طرف سے گھمبیر خاموشی۔ کیمروں کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد سینٹ الیکشن میں جو "ہَتھ" ہوا اُس نے ڈَسکہ کے ضمنی انتخاب کی یاد تازہ کر دی۔ صادق سنجرانی کوسینٹ میں 48 ووٹ ملے جبکہ پی ڈی ایم کے اُمیدوار یوسف رضا گیلانی کو 42۔ اِس الیکشن کے لیے صدرِمملکت نے سینیٹر سید مظفرعلی شاہ کو پریذائیڈنگ آفیسر مقرر کیا جن کاتعلق حکومت کی اتحادی جماعت جی ڈی اے سے ہے۔ شاہ صاحب نے پی ڈی ایم کے اُمیدوار یوسف رضا گیلانی کے 7 ووٹ مسترد کر دیئے جس پر پیپلزپارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ 7 ووٹ کسی بھی صورت میں مسترد نہیں ہو سکتے۔ سید مظفر شاہ کا جواب تھا "میں تو ووٹ مسترد کر چکا" گویا "کر لو جو کرنا"۔
دورانِ ملازمت مجھے کئی بار بطور پریذائیڈنگ آفیسر فرائض سرانجام دینے کا موقع ملا۔ اِس لیے اپنے تجربے کی بنا پر کہہ سکتی ہوں کہ یہ 7 ووٹ مسترد نہیں کیے جا سکتے۔ اصول یہ ہے کہ ووٹر نے بیلٹ پیپرپر اپنے اُمیدوار کے خانے میں مہر لگانی ہوتی ہے۔ یہ مہر اُمیدوار کے خانے میں یا اُمیدوار کے نشان پر کسی بھی جگہ لگائی جا سکتی ہے۔ سینٹ کے موجودہ انتخاب میں بیلٹ پیپر صرف 2 خانوں پر مشتمل تھا۔ ایک خانے میں سیّد یوسف رضا گیلانی اور دوسرے خانے میں صادق سنجرانی کا نام لکھا تھا۔ اگر ووٹر نے یوسف رضاگیلانی کے نام پر مہر لگائی تو ووٹ مسترد نہیں ہو سکتا۔ اِس کے لیے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں۔ پی ڈی ایم کے اُمیدوار کے 7 ووٹ محض اِس لیے مسترد کر دیئے گئے کہ ووٹرز نے مہر گیلانی صاحب کے خانے میں ہی لگائی لیکن اُن کے نام کے اوپر۔ شاید پریذائیڈنگ آفیسر کو کوئی ایسا ہی بہانہ درکار تھاجس پر اُس نے عمل کر دکھایا۔ پی ڈی ایم اِس واضح دھاندلی پر سپریم کورٹ سمیت ہر فورم استعمال کرنے جا رہی ہے۔ گویا "سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں "۔
سینٹ میں ڈپٹی چیئرمین کے حکومتی اُمیدوار مرزا آفریدی بھی جیت چکے۔ مرزا آفریدی کا تعلق سابقہ فاٹا سے ہے اور وہ اب بھی نوازلیگ کے رکن ہیں۔ ڈپٹی چیئرمینی کا لالچ اُنہیں تحریکِ انصاف کے دَر پر لے آیا اور وہ کامیاب بھی ہوگئے۔ جب ایسے لوگوں کے ہاتھ میں عنانِ اقتدار ہو تو اُن سے بھلے کی اُمید کون کر سکتاہے۔ جب ضمیر مفادات کے تابع ہو جائیں تومُردہ ہو جاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارے بزعمِ خویش رَہنماؤں کا ہے جنہیں صرف اپنے مفادات سے غرض ہے۔ یہ اُن کا درد کیا جانیں جو بھوکے پیٹ فُٹ پاتھوں پر سوتے اور ننگے پاؤں جسم پر چیتھڑے اوڑھے پھرتے ہیں۔ اِسی لیے ہم کہتے ہیں کہ ہار ہمیشہ اُنہی کی ہوتی ہے جو گزشتہ 7 دہائیوں سے کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں۔