آج اقوامِ عالم سالِ نَو کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔ ہمیں بھی 2 دفعہ امریکہ میں سالِ نَوکی خوشیاں منانے کا موقع ملا۔ وہاں لوگ ہنستے مسکراتے، دعوتیں اُڑاتے، ایک دوسرے کے گھروں میں کیک بھیجتے اور آتش بازی کے نظارے کرتے سالِ نَو کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
چاہتے تو ہم بھی یہی ہیں کہ جی بھر کے خوشیاں منائیں اور سالِ نَو کو خوش آمدید کہیں لیکن جس مرضِ لادوا میں ہم مبتلاء ہیں، اُس کی مسیحائی ناممکن کہ "خودکردہ راعلاجے نیست"۔ جس ملک میں عدلیہ زورآوروں کے زیرِاثر فیصلے کرے، طاقتور ترین ہستیاں سازشیں کریں اور مفلس کا رزق اشرافیہ کے خونیں جبڑوں میں ہو
وہاں فلک پہ ستاروں نے کیا اُبھرنا ہے
ہر اِک آنکھ جہاں آنسوؤں کا جھرنا ہے
آج مفلس ہی نہیں، متوسط طبقہ بھی کمرتوڑ مہنگائی کے ہاتھوں خودکُشی کے بارے میں سوچتا ہے لیکن جن کے ہاتھوں میں ملک کی تقدیر، وہ اب تک کرسی اور شیروانی کی تگ ودَو میں مصروف۔ وطنَ عزیز تو پٹری سے اُسی وقت ہی اُتر گیا تھا جب 2017ء میں ایک سازش کے تحت میاں نوازشریف سے وزارتِ عظمیٰ چھین کر اُنہیں تاحیال نااہل قرار دیا گیا۔ تب سے اب تک ملک کی معیشت کا پہیہ اُلٹا گھومنا شروع ہوا اور اب پاتال میں۔ وجہ سب پہ عیاں لیکن لبوں پہ خاموشی کی مہریں۔ "تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق آج یہ مہریں ٹوٹ چکیں اور بقول فیض احمد فیض
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
معلوم تو ہمیں اُسی وقت ہوگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رُکنی بنچ نے صرف "بیلسنگ ایکٹ" کے تحت عمران خاں کو صادق وامین اور جہانگیر ترین کو نااہل قرار دیا ہے لیکن اب سینئر کالم نگار جاوید چودھری نے سارا کچا چٹھا کھول کے رکھ دیا جس کی تصدیق ماضی میں عمران خاں کے قریب ترین شخص عون چودھری نے بھی کی۔
اُس نے کہا کہ جہانگیر ترین نے عدالت کو تمام دستاویزات فراہم کر دی تھیں لیکن عمران خاں کے پیپر بھی مکمل نہیں تھے۔ جمائما نے جس بینک کے کاغذات بھیجے، وہ 10 سال پہلے بند ہو چکا تھا۔ چونکہ یہ طے ہو چکا تھا کہ عمران خاں کو این آراو دینا ہے اِس لیے بیلنس کرنے کے لیے جہانگیر ترین کو نااہل اور عمران خاں کو کلیئر کر دیا گیا۔
سینئر کالم نگار جاوید چودھری نے اپنے کالم میں لکھا "حنیف عباسی نے نومبر 2016ء میں سپریم کورٹ میں عمران خاں اور جہانگیر ترین کے خلاف دو پٹیشنز دائر کیں۔ حنیف عباسی کا دعویٰ تھا کہ عمران خاں نے آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹڈ اور بنی گالہ کی 300 کنال اراضی کی مَنی ٹریل چھپائی جبکہ جہانگیر ترین نے بھی آف شور کمپنیاں، بیرونِ ملک اثاثے اور ساڑھے 18 ہزار ایکڑ اراضی چھپائی۔ لہٰذا یہ دونوں حضرات آرٹیکل 62، 63 کے تحت صادق وامین نہیں ہیں، اِنہیں ڈِس کوالیفائی کیا جائے۔
جسٹس ثاقب نثار اُس وقت چیف جسٹس، قمرجاوید باجوہ آرمی چیف اور میجر جنرل فیض حمید آئی ایس آئی میں ڈی جی سی تھے"۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ عمران خاں کی ڈِس کوالیفیکیشن سامنے نظر آرہی تھی۔ جنرل باجوہ نے فیض حمید کو عمران خاں کی مدد کی ہدایت کر دی۔ اُن کا خیال تھا ایک وزیرِاعظم ڈِس کوالیفائی ہو چکا ہے اور اگر دوسرا الیکشن سے پہلے ہی ڈِس کوالیفائی ہوگیا تو ملک کیسے چلے گا۔ جنرل فیض حمید سے ملاقات میں ثاقب نثار نے عمران خاں اور جہانگیر ترین، دونوں کو بیک وقت صادق وامین ڈکلیئر کر نے سے انکار کر دیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ ساتھی جج نہیں مانیں گے۔
دونوں میں سے کسی ایک کو بچا لیں۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ جہانگیر ترین کو قربان کر دیا جائے۔ بنچ کے فیصلے میں عمران خاں صادق وامین اور جہانگیر ترین تاحیات نااہل ٹھہرے۔ بعد میں عمران خاں کے دَورِ حکومت میں جب بھی اسٹیبلشمنٹ نے جہانگیر ترین کو ریلیف دینے کی کوشش کی، عمران خاں نے صاف انکار کر دیا۔ وجہ یہ تھی کہ عمران خاں کی اہلیہ بشریٰ بی بی جہانگیر ترین کے شدید مخالف تھی۔ یہ عمران خاں کے لیے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا پہلا این آراو تھا۔
عمران خاں کے دَورِ حکومت کے واقعات سب کے سامنے ہیں۔ ملک کو ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچانے کی ذمہ دار صرف تحریکِ انصاف کی ساڑھے تین سالہ حکومت ہے جس نے اِس مختصر سے عرصے میں 20 ہزار ارب روپے قرضہ لیا جبکہ قیامِ پاکستان سے 2018ء تک کی حکومتوں نے کُل 25 ہزار ارب روپے قرضہ لیا۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ اِس ساڑھے تین سالہ دَور میں اتنا قرض لینے کے باوجود کوئی ایک منصوبہ بھی شروع کیا گیا نہ ہی ایک اینٹ رکھی گئی۔
یہ ضرور ہوا کہ قوم کو بھیک کی عادت ڈالنے کے لیے لنگرخانے کھولے گئے لیکن معیشت کی بہتری کے لیے کوئی قدم نہ اُٹھایا گیا۔ آج کمرتوڑ مہنگائی کاسارا الزام اتحادیوں کی حکومت پر لگایا جا رہا ہے۔ حقیقت یہی کہ مہنگائی کو پَر لگ چکے ہیں اور روپے کی بے قدری کا یہ عالم کہ افغانستان جیسا ملک بھی ڈالروں میں تجارت چاہتا ہے، روپوں میں نہیں۔ ہمارے تجزیہ نگاروں کو مہنگائی کا عفریت تو نظر آتا ہے لیکن وہ اِس کے اسباب پر کم کم ہی نظر ڈالتے ہیں۔
جب سب کچھ عیاں ہو چکا اور یہ بھی طے ہو چکا کہ ملک کو اِس حالت تک پہنچانے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے عمران خاں جیسے نااہل شخص کو نا صرف این آر او دلوایا بلکہ اُسے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے بڑے پاپڑ بیلے۔ آج یہ سبھی لوگ زندہ سلامت اور اپنی عیاشیوں میں مگن ہیں۔ کیا وطنِ عزیز میں اتنا ہی قحط الرجال ہے کہ کوئی ہاتھ اُن کے گریبانوں تک نہیں پہنچ سکتا؟ کیا اتحادی حکومت میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کی سَکت بھی باقی نہیں بچی؟ وہ آج بھی "لاڈلا" ہی ہے جو زمان پارک میں بیٹھاپاکستان کو ڈیفالٹ کرانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے سوچتا رہتا ہے۔
مقصد اُس کا یہ کہ اُس کی کرپشن کو بھول کر زورآور ایک دفعہ پھر اُسے گود لے لیں۔ حالات مگر یکسر مختلف کہ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف سیّد عاصم منیر ملکی سیاست میں عدم مداخلت کا عہد کر چکے۔ شنید ہے کہ 30 دسمبر کو منعقد ہونے والی قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں چیف آف آرمی سٹاف نے کھُل کرکہا کہ فیصلے حکمران کریں گے اور اُن پر عمل درآمد کے لیے افواجِ پاکستان ہمہ وقت تیار۔ اگر ایسا ہی ہو جائے تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وطنِ عزیز ایک دفعہ پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا۔
اب جبکہ پاک آرمی آئینِ پاکستان کے عین مطابق سیاست سے کنارہ کش ہونے کا عہد کر چکی تو حکمرانوں کو الزام تراشیوں کی بجائے راست اقدام اُٹھانے ہوں گے۔ عمران خاں اور بشریٰ بی بی کی کرپشن کے چرچے گلی گلی۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس تاحال درمیان میں ہی لٹک رہا ہے۔ برطانیہ سے آئے ہوئے حکومتِ پاکستان کے 50 ارب روپے ملک ریاض کو واپس کرنے اور اُس کے عوض القادر یونیورسٹی کے لیے 485 کنال زمین بطور عطیہ وصول کرنے اور بشریٰ بی بی کے ملک ریاض سے ہیروں ہار اور انگوٹھیاں وصول کرنے کی داستانیں بھی زباں زدِعام۔
سب سے بڑھ کر توشہ خان کی لوٹ مار، جس میں عمران خاں اور اُس کی اہلیہ نے یوں ہاتھ رنگے کہ خالی توشہ خانہ بھاں بھاں کرنے لگا۔ توشہ خانہ کی لوٹ مار میں بات کروڑوں سے نکل کر اربوں تک جا پہنچی۔ یہ سب کچھ اگر درست ہے تو پھر حکومتِ وقت نے ایک چور کو تباہیوں کی داستانیں رقم کرنے کے لیے کیوں کھُلا چھوڑ رکھا ہے؟ عمران خاں کی کرپشن کی داستانیں سُنتے سُنتے کان پَک چکے لیکن حکومت تاحال ستّو پی کر سوئی ہوئی ہے۔ اگر حکمران ایک کرپٹ شخص پر ہاتھ ڈالنے کے اہل بھی نہیں تو پھر اُسے حکومت کرنے کا کیا حق ہے؟