یہ مکافاتِ عمل نہیں تواور کیا ہے کہ میاں نوازشریف عدالتوں میں سُرخرو ہورہے ہیں اور عمران خاں پر نِت نئے مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ عمران خاں اِس وقت اڈیالہ جیل کی اُسی بیرک میں بند ہیں جہاں میاں نوازشریف نے بھی کچھ عرصہ قید کاٹی۔ اپنی انا، ضد اور نرگسیت کی بناپر مغرورومتکبر عمران خاں نے بطور وزیرِاعظم 2019ء میں واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران مُنہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ پاکستان واپس جاکر قیدی میاں نوازشریف کا اے سی اُتروائیں گے اور گھرکا کھانا بھی بند کرائیں گے۔
آج عمران خاں ورزش کے لیے سائیکل اور لندن میں موجود اپنے بیٹوں سے بات کرنے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اُنہیں بیٹوں سے بات کرنے کی سہولت ضرور ملنی چاہیے لیکن کیا اُنہوں نے کبھی سوچا کہ جب میاں نوازشریف جیلرسے اپنی بسترِمرگ پر پڑی اہلیہ بیگم کلثوم نوازکی خیریت دریافت کرنے کے لیے فون پر اپنے بیٹے سے بات کرنے کی درخواست کررہے تھے تو جیلر کے صاف انکار پر اُن کے دل پر کیا بیتی ہوگی۔
عمران خاں کے بیٹے تو ماشاء اللہ جوان اور مکمل صحت مند ہیں (اللہ اُنہیں طویل عمر عطاکرے) لیکن میاں صاحب کی اہلیہ تو بسترِمرگ پر تھیں اور اُسی جیلر نے صرف 2 گھنٹے بعد ہی اُن کی موت کی اطلاع بھی دے دی لیکن اگر عمران خاں کے اندر دھڑکتا ہوا دل ہوتا توکیا جیلر اتنی جرأت کرتا؟ جب عمران خاں میاں نوازشریف کے خلاف مدعی بن کر سپریم کورٹ میں پاناماکیس لے کر گئے تو کیا اُنہیں علم نہیں تھا کہ پاناما پیپرز میں تو نوازشریف کا نام ہی نہیں۔ اگر عمران خاں اپنی اندھی طاقت کے بَل پر نوازلیگ کے رَہنماؤں کو نشانِ عبرت بنانے کی نہ ٹھان لیتے تو یقیناآج اُنہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے بنچ نے 28 نومبر 2023ء کو میاں نوازشریف کو ایون فیلڈ ریفرنس سے باعزت بری کردیااور نیب نے فلیگ شِپ ریفرنس میں دائر اپیل واپس لے لی جس پر یہ اپیل بھی خارج کردی گئی۔ بری ہونے کے بعد میاں نوازشریف نے کہا "میں نے اپنے معاملات اللہ پر چھوڑ دیئے تھے، اللہ تعالیٰ نے آج مجھے سُرخ روکیا"۔ اب صرف العزیزیہ ریفرنس پر میاں صاحب کی اپیل کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے اِسی بنچ میں 8 دسمبر کو میاں صاحب کی اپیل پر شنوائی ہوگی۔ اغلب یہی کہ اِس کیس میں بھی میاں صاحب بری ہوجائیں گے کیونکہ احتساب عدالت کے جج ارشدملک مرحوم کا ویڈیو بیان سامنے ہے جس میں اُس نے اقرار کیا کہ میاں صاحب بے گناہ تھے، اُنہیں دباؤ کے تحت سزا سنائی گئی۔ اِسی کیس میں ارشدملک کو اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔
جب سزا سنانے والے جج کا ویڈیو بیان سامنے ہے اور نیب کے پاس العزیزیہ ریفرنس کا کوئی ثبوت بھی نہیں تو پھر سزا کے باقی رہنے کا کوئی جوازبھی نہیں۔ رہی بات میاں صاحب کی تاحیات نااہلی کی تو اتحادی حکومت پہلے ہی یہ آرڈیننس پاس کرچکی ہے کہ نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال ہوگی۔ اِسی لیے گلی گلی میں شور ہے کہ 8 فروری 2024ء کے عام انتخابات کے بعد میاں نوازشریف چوتھی بار وزیرِاعظم بننے جارہے ہیں۔
شریف خاندان کے ابتلاء کا دَور 2016ء میں پانامالیکس سے شروع ہوا جس میں میاں نوازشریف کے بیٹوں حسن اور حسین نوازکی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا۔ اِنہی لیکس میں اُن کے لندن کے مہنگے ترین علاقے مے فیئر میں فلیٹس کا انکشاف بھی ہوا۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے تحقیقات شروع کیں۔ چیف جسٹس انورظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعدثاقب نثار چیف جسٹس بنے تو پہلی بار سپریم کورٹ کا پانچ رُکنی بنچ تشکیل دیاگیا جس میں عمران خاں اور امیرِ جماعت اسلامی سراج الحق کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں پر اَزسرِنَو سماعت شروع ہوئی۔
یہ بنچ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خاں، جسٹس گلزاراحمد، جسٹس عظمت سعیداور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تھا۔ پاناماکیس میں سپریم کورٹ کے 18 جولائی 2017ء کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے میاں نوازشریف اور اُن کے بچوں کے خلاف 8ستمبر 2017ء کو احتساب عدالت میں 3 ریفرنس دائر کیے۔ نیب کے مطابق میاں نوازشریف کی وزارتِ اعلیٰ اور وزارتِ عظمیٰ کے دوران حسن اور حسین نوازنے یہ جائیدادیں بنائیں جبکہ اُن کے پاس کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے۔
نیب کا یہ مؤقف تھا کہ دراصل میاں نوازشریف ہی اِن جائیدادوں کے مالک ہیں جبکہ میاں نوازشریف نے یہ مؤقف اختیارکیا کہ اُن کے بچوں کو اُن کے دادا میاں محمدشریف کی طرف سے ملنے والی جائیداد سے یہ سرمایہ کاری ہوئی۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ یہ جے آئی ٹی جانبدارہے کیونکہ اِس کی تشکیل سپریم کورٹ نے ہی واٹس ایپ کے ذریعے کی۔
حقیقت یہ کہ پانامالیکس میں میاں نوازشریف کا سرے سے نام ہی نہیں تھالیکن چونکہ زورآور بہرصورت اُنہیں نااہل کرکے عمران خاں کے لیے وزارتِ عظمیٰ کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے اِس لیے واجدضیاء کی سربراہی میں یہ جے آئی ٹی تشکیل دی گئی اور سپریم کورٹ کے جسٹس اعجازالاحسن کو نگران جج مقرر کیاگیا۔ یہ بھی تاریخِ عدل میں پہلا واقعہ تھا کہ کسی تحقیقاتی کمشن پر نگران جج بھی مقرر ہوا۔
میاں نوازشریف کی تاحیات نااہلی کے بعد ایک موقع پر واجدضیاء نے اقرار کیا کہ میاں صاحب کے آف شور کمپنیوں اور لندن فلیٹس کے مالک ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات کی روشنی میں 28 جولائی 2017ء کو میاں نوازشریف کو نااہل قرار دے دیاگیا۔ یہ نااہلی تاریخِ عدل میں ہمیشہ ایک مذاق ہی سمجھی جائے گی اور سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کو جسٹس منیر کے "نظریہئی ضرورت" سے بھی بَدتر فیصلہ قرار دیا جاتا رہے گا۔ وجہ اِس کی یہ کہ جب جے آئی ٹی اپنی تمامتر کوششوں کے باوجود میاں نوازشریف کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہ کرسکی تو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کا بہانہ بناکر اُنہیں نااہل کردیا گیا۔۔ لاء کی کسی کتاب میں تو ایسی نااہلی کا کوئی وجود تک نہ تھا لیکن کسی "بلیک لاء ڈکشنری" کا بہانہ بناکر یہ نااہلی کی گئی۔ جوازیہ بنایا گیا کہ میاں صاحب نے اپنے بیٹے سے تنخواہ تو نہیں لی لیکن لے تو سکتے تھے اِس لیے یہ اُن کا اثاثہ ہے جسے ظاہر کرنا ضروری تھا۔ اُنہوں نے اِس معاملے میں جھوٹ بولااِس لیے اُنہیں نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
2017ء میں جب میاں نوازشریف کو نااہل قراردیا گیا اُس وقت پاکستان تیزی سے ترقی کی منازل طے کررہا تھا۔ گیم چینجر منصوبے سی پیک پر تیزی سے کام ہورہا تھا، پاکستان آئی ایم ایف کو خُداحافظ کہہ چکاتھا اور بین الاقوامی سرویز کے مطابق پاکستان دنیا کی 18 ویں بڑی معیشت بننے جارہا تھا۔ محض لاڈلے کے سَرپر اقتدار کا ہُما بٹھانے کے لیے یہ گھناؤنی سازش کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ڈیفالٹ کے کنارے تک جاپہنچا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ ترین عدلیہ کی ملّی بھگت سے ہوا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ارضِ وطن کو ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچانے والے ہاتھوں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟