معاشیات میں ایم اے کرنے کے باوجود ہم ماہرِ معیشت نہ ہی کبھی اِس گورکھ دھندے میں پڑتے ہیں البتہ اتنا تو معلوم کہ جب طلب، رسد سے بڑھ جائے تو مہنگائی ہوتی ہے اور دنیا کا کوئی بھی ماہرِمعیشت اِس مہنگائی کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔ گزشتہ 3 سالوں سے ہم یہی دیکھتے آرہے ہیں کہ کبھی چینی مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے تو کبھی آٹا۔ انسانی ضرورت کی اگر کوئی چیز دستیاب ہوتی ہے تواُس کے نرخ بڑھا دیئے جاتے ہیں۔ اشیائے خورونوش کے ساتھ ادویات بھی انسانی زندگی کا جزوِ لاینفک ہیں جن کی اِسی "شفاف چلی" حکومت نے 500 فیصد تک قیمتیں بڑھا دیں۔ اصل مسئلہ یہ کہ جو خود اطلس وکمخواب میں لپٹے ہوئے ہوں وہ بھلا مفلس کا درد کیا جانیں۔ اُنہیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ افلاس کیا ہے۔ اگر وزیرِاعظم صاحب کو کسی فقیر کی کُٹیا میں رہنا پڑے یا فُٹ پاتھ پر سونا پڑے تو اُنہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے۔ وہ اگر کسی رمضان بازار کا دورہ بھی کرتے ہیں تو قدم قدم پہ سیکیورٹی اور گاہک ایک بھی نہیں۔ اِسی لیے ہم نے اُن کے ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے دعووں پر کبھی اعتبار نہیں کیا۔ رہی سالانہ بجٹ کی بات تو یہ ہمیشہ اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ ہوتاہے جس کا عامی تو کیا پارلیمنٹیرینز کی غالب اکثریت کو بھی بالکل اُسی طرح "کَکھ" پتہ نہیں ہوتا جیسے وہ آئینِ پاکستان کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ اُن کی ذمہ داری صرف بجٹ یا کسی بِل کی منظوری کے وقت ہاتھ کھڑے کرنا ہوتی ہے۔ جب کوئی بِل پارلیمنٹ میں پاس ہورہا ہوتاہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سپیکر صاحب کسی پرائمری سکول کے ٹیچر ہوں اور سامنے "نالائق" شاگرد۔ ایسا صرف موجودہ دَورِحکومت میں ہی نہیں بلکہ ہر حکومت میں ہوتاہے۔ موجودہ حکومت جو قوم کی تقدیر بدلنے کے دعوے کے ساتھ آئی تھی، اُس نے مفلسوں کو خوشحال تو کیا کرنا تھا، اُن کے مُنہ کا نوالہ بھی چھین لیا۔ اب بھی دعویٰ یہی کہ اگلے 2 سالوں میں معجزات رونما ہوں گے اور اُمراء بھی غرباء کی زندگیوں پر رشک کریں گے۔
اڑھائی سالوں میں "صاف چلی شفاف چلی" کے چوتھے وزیرِخزانہ شوکت ترین نے اگلا بجٹ پیش کر دیا ہے۔ بجٹ پر بات کرنے سے پہلے حکمرانوں سے سوال کہ نوازلیگ کی حکومت وافر مقدار میں بجلی چھوڑ کر گئی تھی جس کا خود حکمران بھی اقرار کرتے رہے۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ اِس شدید گرمی میں بجلی یکدم غائب ہوگئی؟ کیا اِس لوڈشیڈنگ کی ذمہ دار بھی نوازحکومت ہے؟ اگلا سوال یہ کہ قیامت خیز گرمی میں کس کے دباؤ پر سکول کھولے گئے؟ کیا پرائیویٹ سکول کے مالکان کا پریشر اتنا بڑھا کہ حکومت برداشت نہیں کرسکی؟ سکول کھولنے کی احمقانہ حرکت کرنے والے ایئرکنڈیشنڈ گھروں، دفتروں اور گاڑیوں کے باسیوں سے سوال ہے کہ بارہ کہو کے فیڈرل سکول میرہ میں شدید گرمی اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بیہوش ہونے والے 25 بچوں کی اِس حالت کا ذمہ دار کون ہے؟ ڈہرکی ٹرین حادثے میں 70 انسانی جانیں چلی گئیں، بہت سے شدید زخمی ہوئے اور کئی معذور لیکن وزیرِریلوے اعظم سواتی ابھی تک اپنی سیٹ پر براجماں جبکہ نوازلیگ کے دَور میں ریلوے حادثے پر عمران خاں نے زور دے کر وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے دعوے کرنے والو! کیا امیرالمومنین حضرت عمرؓ کا یہ قول یاد نہیں "اگر کسی کی وجاہت کے خوف سے عدل کا پلڑا اُس کی طرف جھُک جائے تو پھر اسلامی ریاست اور قیصروکسریٰ کی حکومت میں کیا فرق ہوا؟ "۔ بدقسمتی سے ہماری مجوزہ ریاستِ مدینہ کا حکمران تو کرسی بچانے کی فکر میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہانگیرترین اور علی ترین کو این آر او مِل گیا۔ محض بجٹ میں ترین گروپ کے ووٹوں کی حمایت کی خاطر حکومتی اشارے پر ایف آئی اے کے تفتیشی نے عدالت کے سامنے بیان دے دیا کہ ایف آئی اے کا جہانگیر ترین یا علی ترین کو فی الحال گرفتار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ ابھی تفتیش جاری ہے۔ سوال یہ کہ جہانگیرترین اور اُس کے بیٹے کے خلاف تو 2 ایف آئی آر کٹ چکیں پھر تفتیشی کیسے کہہ سکتا ہے کہ ایف آئی اے ابھی ریکارڈ کا جائزہ لے رہی ہے۔ جہانگیرترین تو پھر بھی مدبر اور تجربہ کار سیاستدان ہے، تحریکِ انصاف میں تو "اسبغول تے کُچھ نہ پھر ول"۔ فردوس عاشق نے ڈہرکی سانحے پر کہا کہ اِس سال "اللہ کے فضل سے" یہ پہلا حادثہ ہے۔ یہ وہی صاحبہ ہیں جس نے ٹاک شو میں پیپلزپارٹی کے عبد القادرمندوخیل کا گریبان پکڑا اور اُس کے مُنہ پر تھپڑ مارنے کی کوشش کی۔ اِسی محترمہ نے کچھ عرصہ پہلے رمضان بازار میں لیڈی اسسٹنٹ کمشنر کی عوام کے سامنے بے عزتی کی جس پر پنجاب کے چیف سیکرٹری نے وزیرِاعلیٰ سے اِس رویے کی شکایت بھی کی لیکن ہوا یہ کہ فردوس عاشق سے جواب طلبی کی بجائے اسسٹنٹ کمشنر کا تبادلہ کر دیا گیا۔ بجٹ سیشن میں وزیرِخزانہ کی تقریر کے دوران ایک محترمہ حکومتی بینچوں سے اُٹھ کر اپوزیشن بینچوں میں گھُس گئی اور پھُدک پھُدک کر وہ بینرز پھاڑنے کی کوشش کرتی رہی جو اپوزیشن کی خواتین نے اُٹھائے ہوئے تھے۔
اب موجودہ بجٹ پرایک نظر۔ یہ بجٹ محض اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ ہے جس پر نہ صرف اپوزیشن بلکہ معاشی تجزیہ کار بھی سوال اُٹھا رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے سوال بجا کہ وزیرِخزانہ شوکت ترین جو حصولِ وزارت سے محض ڈیڑھ ماہ پہلے کہہ رہا تھا کہ موجودہ حکومت نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اب بجٹ تقریر میں پاکستان کو وزیرِاعظم کی کاوشوں سے جنت نظیر بنا کر پیش کر رہا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف نے اگلے مالی سال کے لیے گروتھ ریٹ جی ڈی پی 2 فیصد اور ورلڈ بینک نے ڈیڑھ فیصد کا اندازہ لگایا ہے جبکہ شوکت ترین اِسے 4.8 فیصد تک لیجانے کے دعوے کر رہا ہے۔ آخر اُس کے پاس ایسی کون سی گیدڑسنگھی ہے جو گروتھ ریٹ اِس حد تک لے جا سکتا ہے۔ اِس بجٹ کا سارا دارومدار ٹیکسوں پر ہے۔ ٹیکسوں کا تخمینہ 5829 ارب لگایا گیا ہے جو کہ پچھلے بجٹ سے 1200 ارب زیادہ ہے۔ کیا حکومت ٹیکس اہداف حاصل کر پائے گی؟ مہنگائی جوں کی توں ہے اور جونہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی مہنگائی کا طوفانِ بلاخیز مفلسوں کے سروں پر مسلط ہو جائے گا جبکہ حکومت نے حسبِ سابق ایک دفعہ پھر ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ گھروں جیسے سہانے سپنوں کی طرح کہہ دیا کہ اب ہر گھر میں صحت کارڈ تقسیم کیے جائیں گے اور ہر گھر کے ایک فرد کو مفت ٹیکنیکل ٹریننگ دی جائے گی لیکن اب قوم "شیخ چلی" کے منصوبوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات ابھی جاری ہیں اور یہ طے کہ آئی ایم ایف کے بغیر تو یہ حکومت ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتی۔ سوال یہ بھی کہ کیاحکومت آئی ایم ایف کو مطمئن کر پائے گی یا پھر 3 ماہ بعد مِنی بجٹ آئے گا؟
ارضِ وطن میں سب سے مجبور محدود آمدنی والا تنخواہ دار طبقہ ہے جسے پچھلے بجٹ میں لال جھنڈی دکھا دی گئی۔ خیال یہی تھا کہ موجودہ بجٹ میں تنخواہ دار ملازمین اور پینشنرز کی اشک شوئی کی جائے گی۔ جس وقت پارلیمنٹ ہاؤس میں بجٹ پیش کیا جا رہا تھا اُس وقت بھی ملازمین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کر رہے تھے لیکن 2 لاکھ روپے ماہانہ میں گزارا نہ ہونے کا رونا رونے والے وزیرِاعظم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے تنخواہوں اور پینشن میں 10 فیصد اضافے کی منظوری دے دی۔ اِسی بجٹ میں کم از کم تنخواہ 20 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ کیا وزیرِاعظم یا وزیرِخزانہ اِس مہنگائی کے عروج پر 20 ہزار روپے میں گھریلو بجٹ بنا کر دکھا سکتے ہیں؟ غالباََ مہنگائی کو مدِنظر رکھتے ہوئے وزیرِاعظم ہاؤس کے اخراجات 34 کروڑ 80 لاکھ سے بڑھا کر 52 کروڑ 20 لاکھ روپے کر دیئے گئے۔ یہ اضافہ لگ بھگ 53 فیصد بنتا ہے، پھر ملازمین اور پینشنرزکے لیے اضافہ بقدرِ اشکِ بُلبل کیوں؟ حقیقت یہی کہ اپنے لیے خزانوں کہ مُنہ کھلے اور مفلسوں کے لیے "سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم"۔