جب سے تبدیلی سرکار "مسلط" ہوئی ہے پاکستان کے گلی کوچوں میں ایک ہی نعرہ " این آر او نہیں دوں گا" گونج رہا ہے۔ پہلے یہ نعرہ وزیرِاعظم لگاتے تھے لیکن اب "ٹَکے ٹوکری" ہوچکا۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا حال یہ کہ بات چین کی ہو یا جاپان کی، اِن کی تان اِس پر ٹوٹتی ہے کہ کرپٹ اپوزیشن این آر او مانگتی ہے۔ وزیرِاعظم نے بھی اپنے بیرونی دوروں میں اپوزیشن کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ بیجنگ ہو یا واشنگٹن، ہر جگہ چورچور، ڈاکو ڈاکو کی گردان نے پاکستان کو "رَج کے" بدنام کیا۔ عقلمندی کا تقاضہ تو یہ کہ گھر کے گندے کپڑے باہر نہیں دھوتے لیکن ہمارے وزیرِاعظم نے بیچ چوراہے مجمع لگا کر دھوئے۔ فائدہ مگر کچھ نہ ہوا البتہ پاکستان کی بدنامی ضرور ہوئی۔ اُدھر اپوزیشن یہ کہے کہ اُس کے دامن پہ کوئی داغ نہیں، حکمران بتائیں کہ این آراو مانگا کس نے ہے۔ قوم بھوکوں مر رہی ہے اور حکومت کا اُٹھنابیٹھنا، چلنا پھرنا این آر او اور نہیں چھوڑوں گا پر محیط۔ این آر او کا تحفہ آمر پرویزمشرف کی دین ہے۔ یہ "لعنت" پرویزمشرف کے دور میں شروع ہوئی جس نے دباؤ میں آکر این آر او (قومی مفاہمتی آرڈیننس) جاری کیا۔
یوں تو اِس آرڈیننس کے بارے میں کہا گیا کہ اِس سے قومی مفاہمت کا فروغ، سیاسی انتقام کا خاتمہ اور شفاف انتخابات مقصود ہیں لیکن درحقیقت پرویزمشرف نے یہ آرڈیننس امریکی دباؤ میں آکر 5 اکتوبر 2008ء کوجاری کیا جو 7 دفعات پر مشتمل تھا۔ اِس صدارتی آرڈیننس کے ذریعے صدرِمملکت نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے یکم جنوری 1986ء سے 12 اکتوبر 1999ء کے درمیان تمام مقدمات ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اِس قانون کے تحت 8 ہزار سے زائد مقدمات ختم کر دیئے گئے جن میں ایم کیو ایم کے الطاف حسین کے خلاف مقدمات بھی شامل تھے۔ اِس کے علاوہ اسی جماعت کے کئی قاتلوں کو بھی این ار او کی چھتری نصیب ہوئی۔ اِسی آرڈیننس کی چھترچھایا میں محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان تشریف لائیں اور جلاوطن شریف فیملی کو بھی پاکستان واپس آنے کا موقع ملا۔
3 نومبر7 200ء کو پرویزمشرف نے "ایمرجنسی پلس" لگا کر اعلیٰ عدلیہ کو مناصب سے ہٹا کر نئے ججوں سے حلف لیا۔ اِسی دوران 2008ء کے انتخابات ہوئے، پیپلزپارٹی کو مرکز میں حکومت بنانے کا موقع ملا اوریوسف رضا گیلانی نے وزارتِ
عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔ اِس حکومتی تشکیل میں نوازلیگ بھی حکومت کی اتحادی تھی۔ حکومت کے دباؤ پر پرویزمشرف منصبِِ صدارت سے دست بردار ہوئے اور 9ستمبر 2008ء کو آصف علی زرداری نے منصبِ صدارت سنبھالا۔ جب زرداری صاحب بھی عدلیہ بحال کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے تو نوازلیگ نے حکومت سے الگ ہوکرعدلیہ بحالی کے لیے سیاسی جدوجہد شروع کر کے عدلیہ بحالی کے لیے اسلام آباد کی طرف احتجاجی مارچ کا قصد کیا۔ نوازلیگ اور وکلاء کی یہ احتجاجی ریلی ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچی تھی کہ اُس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی گارنٹی پر یہ ریلی ختم کر دی گئی اور وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے 21 مارچ 2009ء کی نصف شب عدلیہ بحالی کا اعلان کردیا اورافتخار محمد چودھری نے تیسری دفعہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مسند سنبھالی۔ این آر اوکے اجراء کے 2 سال 2 ماہ اور 11 دن بعد 16 دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ کے 17 رُکنی بنچ نے اِسے کالعدم قرار دے دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اِس آرڈیننس کو آئین اور مفادِعامہ کے خلاف قرار دیتے ہوئے این آر اوکے تحت ختم کیے گئے تمام مقدمات بحال کر دیئے جس پر پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
سوال یہ ہے کہ وزیرِاعظم صاحب اور کاسہ لیسوں کا بار بار کہنا کہ اپوزیشن این آر او مانگتی ہے جو کسی بھی صورت میں نہیں دیا جائے گا، کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ ۔ جب سپریم کورٹ کے فُل بنچ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ این آراو خلافِ آئین ہے تو پھر جو شخص این آر او دینے یا نہ دینے کی بات کرتا ہے، کیا اُس کا بیان خلافِ آئین نہیں؟ ۔ جو چیز وزیرِاعظم کے دائرۂ اختیار میں ہی نہیں، اُس کا بار بار ڈھنڈورا پیٹ کر وہ کس کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرض کریں کہ اگر اپوزیشن نے این آر او مانگا اور وزیرِاعظم نے دے دیا تو کیا وزیرِاعظم پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو نہیں ہوگا؟ ۔ کیا سپریم کورٹ فوری طور پر اِس آرڈیننس کو کالعدم قرار نہیں دے گی؟ ۔ حقیقت یہ کہ موجودہ حکومت اپنی خامیاں چھپانے کے لیے این آر ا و کی آڑ لے رہی ہے۔ اِس کا ابتدا میں حکومت کو کچھ فائدہ ضرور ہوا اور قوم نے دادوتحسین کے ڈونگرے بھی برسائے لیکن اب سب کچھ عیاں ہو چکا اِس لیے " این آر او نہیں دوں گا یا نہیں چھوڑوں گا " جیسے نعرے اپنی اہمیت کھو چکے کیونکہ قوم اب مزیدبیوقوف بننے کو تیار نہیں۔ یہ حقیقت ایک عامی پر بھی عیاں ہوچکی کہ این آر او دینے کا اختیار نہ تو صدر کے پاس ہے، نہ وزیرِاعظم کے پاس اور نہ ہی پاکستان کی کسی بھی مقتدر شخصیت کے پاس۔ گزارش ہے کہ محترم وزیرِاعظم جمہوری پاکستان کے سربراہ بنیں، آمریت کا ڈھول مت پیٹیں کیونکہ اُن کی یہ سوچ ہی آمرانہ ہے کہ وہ کسی کو این آر او بھی دے سکتے ہیں۔
قوم کو آتشِ شکم کی سیری کے سوا کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی۔ اُس کا این آر او جیسے نعروں سے پیٹ نہیں بھرتا۔ مہنگائی نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ سردیاں تو رہیں ایک طرف گرمیوں میں بھی لوگ پنکھا تک چلانے سے بھی گریز کرتے رہے پھر بھی کئی کئی ہزار کا بِل۔ خورونوش کی اشیاء اتنی مہنگی کہ خُدا کی پناہ۔ چکن، مٹن کا تصور بھی محال، یہاں تو دال روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب ایسی صورتِ حال ہو تو پھر انقلاب آتا ہے، خونی انقلاب۔ ایسے میں وزیرِاعظم اور اُن کے کاسہ لیسوں کی بڑھکوں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ قوم کے لبوں پر صرف ایک سوال کہ تبدیلی سرکار کا آدھا وقت گزر چکا لیکن کارکردگی کہاں جا سوئی؟ ۔ متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) کے جلسوں کی رونقیں بھی اِسی مہنگائی کے ستائے عوام کی وجہ سے بحال ہیں۔ حقیقت یہ کہ قوم اپوزیشن کے عشق میں ہرگز گرفتار نہیں۔ وہ تو روزی روٹی کی آس میں اپوزیشن کے جلسوں کی رونقیں بڑھا رہی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگر موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر بھی گئی تو پھر بھی 2023ء کے انتخابات میں حکمرانوں کے "پَلّے" کیا ہوگا اور وہ عوام کو کیا مُنہ دکھائیں گے؟ ۔ کیا وزیرِاعظم قوم کو یہ بتائیں گے کہ اُنہیں وزارتِ عظمیٰ کی تلاش تھی جو الیکٹیبلز کے بغیر ممکن نہیں تھی اِسی لیے "بھان مَتی کا کنبہ" جوڑا اور چُن چُن کے لوٹے لُٹیرے اکٹھے کیے؟ ۔ کیا یہ کہیں گے کہ وہ بندے تبدیل کر کرکے تھک بلکہ "ہَپھ" چکے، بیوروکریسی میں تاریخِ پاکستان کی سب سے زیادہ "اُتھل پُتھل" کی، وزیروں مشیروں کو بدل بدل کے بھی دیکھ لیالیکن اُن کی جیب کے سارے سکّے ہی کھوٹے تھے؟ ۔ اب حکمران اپنی "پھُرتیاں " چھوڑیں، بڑھکوں سے گریز کریں اور قوم کو کچھ کرکے دکھائیں، تبھی قوم کا اُن پر اعتماد بحال ہو سکتاہے۔ اگر وہ کاسہ لیسوں کی "سب اچھا ہے" جیسی باتوں پر یقین کرکے یہ کہتے رہے کہ ملک میں مہنگائی نہیں، یہ سب اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے تو پھر تحقیق کہ "اُن کی داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں "۔