ہمارے پاس کوئی طوطا مینا ہے نہ کوّا چڑیا جو ہمیں اندر کی "ڈونگی ڈونگی" خبریں لا کر دیتا رہے۔ ویسے بھی ہم لال حویلی والے کی طرح "طوطا فال" نکال کر اپنی "ٹہور شہور" جمانے کے لیے ایسی پیشین گوئیاں نہیں کرنا چاہتے جو کبھی درست ثابت نہ ہوں۔ "لفافہ صحافت" سے ہمارا دُور کا بھی واسطہ نہیں، وجہ یہ کہ کوشش کے باوجودبھی ہمیں ایسی "آفر" کبھی ہوئی ہی نہیں۔ اِس لیے جو کچھ نظر آتا ہے اُسی کے سہارے "تُک بندی" کرکے اپنے کالموں کا پیٹ بھرتے رہتے ہیں۔
کئی دفعہ سوچا کالموں پر "مٹی پاؤ" کہ اور بھی غم ہیں زمانے میں "کالموں " کے سوا لیکن "چھُٹتی نہیں یہ کافر مُنہ سے لگی ہوئی" کے مصداق "اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو"۔ ہمارے اکثر کالم نگار اپنے ایک کالم میں جو تجزیہ کرتے ہیں، دوسرے کالم میں اُسی تجزیے کی نفی کر رہے ہوتے ہیں۔ عرض ہے کہ ہم اپنے کالموں میں ایسی چالاکی سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ ہم بھی وزیرِاعظم کی طرح "برانڈ" ہیں اور "برانڈ" پر کوئی دَھبہ یا حرفِ ملامت ہمیں قبول نہیں۔
وزیرِاعظم نے کابینہ کے 10 ارکان میں کارکردگی کی منیاد پر تعریفی اسناد تقسیم کرکے دھماکہ کر دیا۔ ہم نے لفظ "دھماکہ" اِس لیے لکھا ہے کہ ایسا پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ کابینہ کے کل 48 ارکان ہیں جن میں سے 10خوش نصیبوں کو تعریفی اسناد ملیں باقی سب مُنہ بسورتے رہ گئے۔ اِس تقریب میں کابینہ کے ارکان کی اکثریت نے شرکت نہیں کی جس کا نوٹس لیتے ہوئے وزیرِاعظم نے فہرست مرتب کرنے والے معاون ارباب شہزاد کو حکم دیا کہ آئندہ اِن معاملات کو خفیہ رکھا جائے۔
ایک نمبری سے دَس نمبری تک کی فہرست پر تبصرہ بعد میں پہلے ناکام ونامراد لوٹنے والوں کی بات ہو جائے۔ تقریب کے بعد ایک وزیر با تدبیر سے سوال ہوا کہ اُنہیں سند کیوں نہیں ملی۔ اُس نے کہا "اللہ کا شکر ہے کہ مجھے سند نہیں ملی، اگر مِل جاتی تو میں کس مُنہ سے عوام میں جاتا"۔ وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی نے وزارتِ خارجہ کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے ارباب شہزاد کو احتجاجی خط بھی لکھ دیا۔ مرنجاں مرنج وزیرِمملکت علی محمد خاں کا تبصرہ سب سے مزیدار۔ اُس نے کہا "جو اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے، ایوارڈ کے حقدار ٹھہرتے ہیں "۔
جب ہم نے ایوارڈ یافتہ افراد کی فہرست پر نظر ڈالی تو ہمیں علی محمد خاں کے بیان میں سچائی کی خوشبو نظر آئی۔ حکومت کے کسی اتحادی کو ایوارڈ کے قابل نہیں سمجھا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیرِاعظم اُن سے کتنے نالاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اچھی کارکردگی نہ دکھانے والے خارجہ، دفاع، خزانہ، اطلاعات ونشریات، توانائی، ریلوے، آبی وسائل، سائنس وٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے وزراء کیا اب بھی اپنی وزارتوں سے چمٹے رہیں گے؟ جب اُن کا اپنا وزیرِاعظم ہی اُن کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو پھر کیا اُن میں اتنی شرم بھی باقی نہیں کہ وہ "نیویں نیویں " ہو کر گھروں کو لوٹ جائیں۔
یہ بھی حیران کُن کہ جب زبان دراز شیخ رشید کو کارکردگی میں 9 واں نمبر مل سکتا ہے تو پھر انتہائی بدتمیز شہبازگِل کو ایوارڈ کیوں نہیں ملا؟ ہمارا احتجاج نوٹ فرما لیں! مانا کہ کارکردگی میں "گولڈمیڈل" حاصل کرنے والا مرادسعید بہت جذباتی، بدتمیز، جھگڑالو اور زبان دراز ہے مگر شہبازگِل اُس سے دو چار ہاتھ آگے ہی ہے لیکن وزیرِاعظم نے اُسے کسی کو مُنہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ ویسے تو فوادچودھری اور شبلی فراز نے بھی وزیرِاعظم کی بہت خدمت کی ہے لیکن وہ بھی فیل ہوگئے البتہ پرویز خٹک کے ساتھ "سُتھری" ہوئی ہے اور ہونی بھی چاہیے تھی کیونکہ اُس نے وزیرِاعظم سے تازہ تازہ "پنگا" لیا تھا۔
اب آتے ہیں کارکردگی کی طرف جس میں اوّل نمبر پر وزیرِمواصلات مرادسعید براجمان۔ یہ وہی مراد سعید ہے جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 7 ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگایا۔ اُس کی کارکردگی کا اندازہ لگانا ہے تو صرف لاہور سے راولپنڈی تک ٹوٹی پھوٹی جی ٹی روڈ پر سفر کرکے دیکھ لیں۔ اُس نے 3 سالوں میں موٹر وے کا ٹول ٹیکس 297 روپے سے بڑھا کر تقریباََ 1000 روپے کر دیا۔ شاید اِسی وجہ سے خاں صاحب نے اُسے پہلے نمبر پر رکھاکیونکہ اُن کو پیسہ مرغوب ہی بہت ہے۔ ویسے بھی "سائیاں دے مَن بھانیاں، کملیاں وی سیانیاں "۔
دوسرے نمبر پر اسد عمر جسے کان سے پکڑ کر وزارتِ خزانہ سے نکالا گیااور اب اُسے "نُکرے" لگایا ہوا ہے۔ مسنگ پرسنز کا مسٔلہ تو تاحال حل نہیں ہو سکا لیکن انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کو 5 واں نمبر مل گیا۔ چھٹے نمبر پر صنعت وپیداوار کے وزیر خسروبختیار، جس کے دَور میں چینی کا بحران پیدا ہوااور تاحال کسان کھاد کے لیے قطاریں لگائے "کوسنے" دے رہے ہیں۔ فوڈ اینڈ سکیورٹی کے وزیر فخر امام کو 10 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ اُن کی وزارت میں گندم اور آٹے کا شدید بحران پیدا ہوا اور کثیر زرِمبادلہ صرف کرکے گندم درآمد کرنی پڑی۔ عبد الرزاق داؤد، ثانیہ نشتر اور معید یوسف، تینوں وزیرِ اعظم کے معاون ومشیر اور تینوں ہی ایوارڈ لے اُڑے۔ ہم نے یہاں ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی کارکردگی کا بہت مختصر تعارف کرایا ہے کیونکہ کالم کا دامن تنگ۔
عرض ہے کہ باخبر حلقوں کے مطابق تحریکِ انصاف کے پنچھی تو پہلے ہی پَر پھڑپڑاتے ہوئے اُڑنے کو تیار بیٹھے ہیں، اب کارکردگی کا ڈھونگ رچا کر وزیرِاعظم نے اپنے وزراء کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ پتہ نہیں کِس حکیم نے اُنہیں ایسا کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ عین حقیقت کہ بیساکھیوں پر کھڑی حکومتوں کا مآل کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ یہ بھی اظہرمِن الشمس کہ موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے اور تب تک کھڑی رہے گی جب تک بیساکھیاں قائم رہیں گی۔ ویسے پاکستان کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیاں کبھی مستقل نہیں ہوا کرتیں۔
آجکل پاکستانی سیاست میں جو ہلچل مچی ہے اور جس طرح سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے رابطے کر رہی ہیں، اُن سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ ہمارے خیال میں اپوزیشن حکومتی اتحادیوں سے جتنے جی چاہے رابطے اور وعدے وعید کر لے، ہونا وہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ چاہے گی۔ اِسی لیے ساری اپوزیشن جماعتیں ہی نہیں، حکومتی اتحادی بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
اگر اسٹیبلشمنٹ چاہے تو اگلے 48 گھنٹوں میں بھی کوئی "دھماکہ" ہو سکتا ہے اور اگر نہ چاہے تو پھر اپوزیشن کو طوہاََ و کرہاََ 2023ء کے انتخابات تک انتظار کرنا ہوگا۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے مَن میں کیا ہے، اِس کی ہم پیشین گوئی نہیں کر سکتے۔ البتہ جس طرح سے عدلیہ، خصوصاََ الیکشن کمیشن کے آزادانہ فیصلے سامنے آرہے ہیں، اُس سے کچھ نہ کچھ ہونے کے آثار بہرحال نمایاں ہیں۔
بدھ 9 فروری کو الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کے وزیر فیصل واوڈا کو دہری شہریت کیس میں نااہل قرار دیتے ہوئے اُس کے بطور سینیٹر نوٹیفکیشن واپس لینے کا حکم دیا۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ فیصل واوڈا 2 ماہ کے اندر تمام مالی مفادات اور مراعات واپس کرے۔
فیصل واوڈا کی آرٹیکل 62-1F کے تحت تاحیات نااہلی پر تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن کے خلاف آگ اُگلتے ہوئے سپریم کورٹ میں اِس آرڈر کو چیلنج کرنے کا اعلان کر رہی ہے۔ اُس کے خیال میں تاحیات نااہلی کا اختیار صرف عدالتوں کے پاس ہے اور الیکشن کمیشن عدالت نہیں۔ ایک حقیقت تو بہرحال روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ فیصل واوڈا نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے وقت جھوٹ بولا اِس لیے وہ صادق وامین نہیں رہا۔
جب پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے سامنے یہ حقائق رکھے جائیں گے تو اُس کا فیصلہ وہی ہوگا جو میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین کے کیسز پر ہوا۔ اِسی آرٹیکل کے تحت اِسی معزز عدالت نے میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین کو تاحیات نااہل قرار دیا۔ عدالت طے کر چکی کہ جو صادق وامیں نہیں وہ کسی بھی انتخاب میں حصّہ لینے کا اہل نہیں۔ رہا سوال تاحیات نااہلی کا تو اگر فیصل واوڈا کو تاحیات نااہل قرار نہیں دیا جاتا تو پھر میاں نوازشریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی بھی سوالیہ نشان بن جائے گی۔