بلاشبہ وہ قسمت کا دھنی ہے۔ 1993ء میں اُس سے وزارتِ عظمیٰ چھینی گئی لیکن 1997ء میں وہ پھر وزیرِاعظم بن گیا۔ 1999ء میں اُسے پورے خاندان سمیت جلاوطن کردیا گیا لیکن 2013ء میں ایک دفعہ پھر وزارتِ عظمیٰ کاہُما اُس کے سَرپر بیٹھ گیا۔ 2013سے 2017ء تک وہ ملک کو معاشی لحاظ سے اُس مقام تک لے گیاکہ آئی ایم ایف کی ضرورت ہی باقی نہ بچی۔ پاکستان نے 2016ء میں آئی ایم ایف کو خُداحافظ کہا اور 2017ء تک ڈالر 104روپے کاتھا، آٹا 35روپے کلو، پٹرول 65روپے لِٹراور سونا 50ہزار روپے تولہ تھا۔
اُسی کے دَور میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوا، کراچی کا امن بحال ہوا اور ملک سے لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہوا۔ پھر کچھ مہربانوں کو ترقی کی شاہراہ پر بگٹٹ پاکستان پسندنہ آیا۔ لندن پلان ترتیب دیاگیا جس کے تحت 2014ء میں ڈی چوک اسلام آباد میں 126روزہ ناکام دھرنا دیا گیا۔ جب بات نہ بنی تو اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے پاناما میں سے اقاما نکالا گیا لیکن عدل کے کسی بھی حوالے سے وہ نااہل قرار نہیں پاتاتھا۔ پھر پتہ نہیں کہاں سے "بلیک لاء ڈکشنری" نکالی گئی اور یوں بڑی تگ ودَو کے بعد اُسے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں نہ صرف تاحیات نااہل قرار دے دیاگیا بلکہ اُس سے اپنی سیاسی جماعت کی صدارت بھی چھین لی گئی۔
آج وہ ایک دفعہ پھر دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گرج رہاہے۔ اپنی سیاسی جماعت کی صدارت اُسے واپس مل چکی، بیٹی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے (پنجاب) کی وزیرِاعلیٰ، بھائی ملک کا وزیرِاعظم اور وہ خود مدارالمہام کہ اُس کی مرضی کے بغیر پتہ ہل سکتاہے نہ پرندہ پَرمار سکتا ہے۔ وہ ہے 3بار کا منتخب وزیرِاعظم میاں نواز شریف جس کی صعوبتوں کی داستان طویل لیکن اُس نے اصولوں پرکبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ 28مئی کو یومِ تکبیر کے موقع پر مسلم لیگ نوازکے جنرل کونسل اجلاس میں میاں نوازشریف کو بلامقابلہ صدر منتخب کرلیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کے دوران میاں صاحب نے فرمایا "خوشیاں منائیں کہ آج ثاقب نثار کافیصلہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا ہے۔
جنرل ظہیرالاسلام نے کہاہم نے مختلف پارٹیوں کو آزمایا اور تیسری قوت کوآنے دیاکہ تیسری قوت ڈلیور کرسکتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی بتائیں کہ کیا تیسری قوت آپ نہیں تھے؟"۔ میاں صاحب نے کہاکہ آج اُنہیں بلائیں جنہوں نے فیصلہ کیاتھا کہ نوازشریف کو ہمیشہ کے لیے فارغ کیاجاتا ہے۔ اُنہیں کارکنوں کا فیصلہ دکھائیں۔ آج نوازشریف پھر آپ کے سامنے کھڑا ہے۔ تاحیات نااہلی کا فیصلہ اِس وجہ سے کیاگیا کہ نوازشریف نے اپنے بیٹے سے تنخواہ کیوں نہیں لی؟ میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی، آپ کے بیٹے سے تو تنخواہ نہیں مانگی تھی؟
ارضِ وطن میں تلخ حقیقت یہی کہ ملک کا سلطان کوئی اور ہوتاہے لیکن خوئے سلطانی کہیں اورڈیرے ڈالے ہوتی ہے۔ اُدھر میاں نوازشریف کی فطرت میں بقول غالب ودیعت کردیا گیا کہ
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سَر بن کہ کیا پوچھیں کہ ہم سے سَرگراں کیوں ہو
اگر میاں صاحب لاڈلے کی طرح زورآوروں کی گود میں ہی کوئی گوشہئی عافیت ڈھونڈلیتے تو نہ اُن سے حکومت چھینی جاتی اورنہ ہی جلاوطنی کا دُکھ جھیلنا پڑتا البتہ اُنہیں رَہنمائی کااعزاز کبھی حاصل نہ ہوتا۔ آج ہرکہ ومہ کہتا ہے کہ پاکستان میں واحد رَہنما میاں نوازشریف ہی ہے۔ جب اُن کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بُنے جارہے تھے اُنہیں تب بھی علم تھاکہ اِن سازشوں کے پیچھے جنرل پاشا، جنرل ظہیرالاسلام، جنرل فیض حمید اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ ہیں۔ اعلیٰ ترین عدلیہ کے کچھ ججزکا کردار بھی اُن کے سامنے تھا کیونکہ اُن کے پاس آڈیوز اور ویڈیوز کی صورت میں ثبوت موجود تھے لیکن پھر بھی اُنہوں نے ڈکٹیشن نہیں لی۔ ہمارے خیال میں ایک سچے اور سُچے رَہنما کی یہی پہچان ہوتی ہے۔
جنرل کونسل اجلاس میں میاں شہبازشریف بھی خوب گرجے اور برسے۔ اُنہوں نے کہا "ججز کی اکثریت ملکی خوشحالی پرمتفق ہے مگرچند کالی بھیڑیں عمران خاں کو ریلیف دینے پر بضد ہیں۔ دن رات مشورے ہورہے ہیں کہ کسی طرح عمران خاں کی ضمانت ہوجائے۔ جیل سے باہر آنے کے لیے عمران خاں کی سازشیں ناکام ہوں گی۔ افواجِ پاکستان کے افسروں کے خاندانوں کو سرِبازار رُسوا نہیں ہونے دیں گے۔ آج نوازشریف سُرخرو اور مخالفین کے مُنہ کالے ہوگئے"۔
میاں شہبازشریف نے یہ بھی کہا کہ وہ عمران خاں جو فوجیوں کے قدموں میں بیٹھتا تھا آج سانحہ سقوط ڈھاکہ پر پاکستان کے حوالے سے مجیب الرحمٰن اور دوسروں کا مقابلہ کررہا ہے۔ ججز محبِ وطن ہیں مگر کچھ کالی بھیڑیں موجود ہیں جن کے ذریعے عمران خاں نے 190ملین پاؤنڈ کرپشن کی۔ ججز سے کہنا چاہتا ہوں کہ نوازشریف کے دَورمیں ضمانتیں نہیں ہوتی تھیں اور آج ضمانتیں ہورہی ہیں۔
میاں برادران نے جوکچھ کہاوہ سب سچ۔ جہاں تک ضمانتوں کاتعلق ہے تواِسی عدلیہ نے سیاسی ملزمان کو اُن کیسز میں بھی ضمانتیں دیں جو ابھی درج بھی نہیں ہوئے تھے۔ یہی وہ عدلیہ ہے جوسانحہ 9مئی کے مرکزی ملزم عمران خاں کو "گُڈ ٹو سی یو" کہہ کر پروٹوکول دیتی ہے۔ یہی وہ عدلیہ ہے جو تحریکِ انصاف کی خاطر آئین ہی RE-WRITE کردیتی ہے۔ یہی وہ عدلیہ ہے جو 3بار کے منتخب وزیرِاعظم کو بے جرم وخطا گاڈفادر اور سسلین مافیہ جیسے القابات سے نوازکر تاحیات نااہل قرار دیتی ہے۔ ایسے میں اگر میاں شہبازشریف نے عدلیہ میں چند کالی بھیڑوں کاذکر کیا ہے توکیا یہ غلط ہے؟
میاں صاحب نے عمران خاں کے جس ٹویٹ کاذکر کیا ہے اُس میں لاڈلے نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار شیخ مجیب الرحمٰن نہیں، جنرل یحییٰ تھا۔ عمران خاں دراصل یہ حوالہ دے کرپاک فوج کو بدنام کرنے کی مکروہ کوشش کررہا ہے۔ تحریکِ انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے کہا "ہماری لڑائی فوج کے ساتھ نہیں، ہماری لڑائی فردِواحد کے ساتھ ہے"۔ رؤف حسن کا واضح اشارہ چیف آف آرمی سٹاف کی طرف ہے جو فوج کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔
رؤف حسن نے یہ بھی کہاکہ عمران خاں کا اکاؤنٹ امریکہ سے آپریٹ ہورہا ہے۔ اب FIA سائبر کرائم ونگ نے اِس معاملے کی انکوائری شروع کردی ہے۔ یہ لوگ جب جیل میں عمران خاں سے انکوائری کرنے گئے تو اُس نے اُن کے سوالات کاجواب دینے سے صاف انکار کردیا۔ بہرحال اِس ٹویٹ سے تحریکِ انصاف مشکل میں آگئی ہے۔ اُدھر 30مئی کو فارمیشن کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں کہاگیا ہے کہ پاکستانی قوم جھوٹ اور پراپیگنڈا کرنے والوں کے مکروہ اور مذموم عزائم سے پوری طرح باخبر ہے۔
پراپیگنڈے کا مقصد قومی اداروں بالخصوص افواجِ پاکستان اور عوام کے درمیان خلیج ڈالنا ہے۔ اِن ناپاک قوتوں کے مذموم ارادوں کو مکمل اور یقینی شکست دی جائے گی اور 9مئی کے منصوبہ سازوں، مجرموں اور سہولت کاروں کے خلاف فوری شفاف عدالتی اور قانونی کارروائی کے بغیر ملک سازشی عناصر کے ہاتھوں یرغمال رہے گا۔