پاکستان کے3بار وزیرِاعظم منتخب ہونے والے میاں نوازشریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز پنجاب کی وزیرِاعلیٰ منتخب ہوچکیں۔ اُنہیں تاریخِ پاکستان کی پہلی وزیرِاعلیٰ منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہواہے۔ کچھ کج فہم سمجھتے ہیں کہ وہ عملی سیاست میں نَووارد ہیں اِس لیے اُن کی کامیابی کا امکان کم کم ہے۔ وہ شائد بھول جاتے ہیں کہ محترمہ کی سیاسی تربیت کا آغاز تو 1999ء میں پرویزمشرف کے مارشل لاء سے ہی ہوگیا تھا۔
جب شریف فیملی کو سعودی عرب کے سرورپیلس میں جلاوطن کی گیا تب سے اب تک میاں نوازشریف اُن کی سیاسی تربیت کرتے رہے۔ وہ تو 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی تیارتھیں اور کاغذاتِ نامزدگی بھی جمع کروا دیئے تھے لیکن اُنہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں میاں نوازشریف کی اعانت کے جرم میں 7سال قید اور 10سال نااہلی کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور عمران خاں کی ملّی بھگت سے شریف خاندان سمیت نوازلیگ کے اکابرین کے ساتھ جو سلوک روا رکھاگیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیامریم نواز نے طاغوت کے سامنے گھٹنے ٹیکے؟ کیامیاں نوازشریف کے جس بیانیے کو لے کروہ کارزارِ سیاست میں اُتری اُس سے سرِمو بھی انحراف کیا؟ اُس نازونعم میں پلی خاتون نے کیا کچھ نہیں جھیلا، جلاوطنی کا دُکھ سہا، قید کاٹتے باپ کے سامنے گرفتار ہوئی، اپنی عزیزازجاں والدہ کو بسترِمرگ پرچھوڑ کر اپنے باپ کے ساتھ قید کاٹنے پاکستان آئیں اور وہ تب بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کررہی تھیں جب اُنہیں والدہ کی رحلت کی خبرملی۔ آج جب وہ مقتدر ہیں تو کہتی ہیں"میرے دل میں کسی کے لیے انتقام کی خواہش نہیں۔ جن لوگوں نے ووٹ نہیں دیامَیں اُن کی بھی وزیرِاعلیٰ ہوں۔ سب کے ساتھ مل کرکام کرنا چاہتی ہوں"۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب نے کہا "میں ظلم اور انتقام کا نشانہ بنانے والوں کی شکرگزار ہوں، میرے لیے سب قابلِ احترام ہیں، سب کے مینڈیٹ کا احترام کرتی ہوں"۔ محترمہ مریم نوازنے یہ صرف کہانہیں بلکہ کرکے بھی دکھایا۔ تازہ ترین مثال یہ کہ جب اُنہیں عالیہ حمزہ کے ٹویٹ سے پتہ چلاکہ اُس کی بہن آسٹریلیا میں وینٹی لیٹرپر ہے اور اُس کانام سٹاپ لسٹ پرہے جس کی بناپر وہ آسٹریلیا نہیں جاسکتی۔ مریم نوازنے جواباََٹویٹ کیاکہ وہ کوشش کرتی ہیں۔ پھر جب عالیہ حمزہ کانام سٹاپ لسٹ سے نکلا تواُس نے محترمہ کا شکریہ بھی ادا کیالیکن آسٹریلیا پہنچتے ہی اُس نے وہی زہر اُگلنا شروع کردیا جووہ گزشتہ 6 سالوں سے مریم بی بی کے خلاف اُگلتی آئی ہے۔ اُس کی اِس احسان ناسپاسی پریاد آیا
شورِ دریا سے یہ کہتا تھا سمندر کا سکوت
جتنا کسی کا ظرف ہے اُتنا ہی وہ خاموش ہے
وزیرِاعلیٰ منتخب ہونے کے بعد محترمہ مریم نوازکا پنجاب اسمبلی میں پہلا خطاب ایک مدبر اور سیاسی طورپر منجھی ہوئی خاتون کاخطاب تھا۔ اُنہوں نے کہا "میری نظرکے سامنے سکول جانے سے محروم بچہ اور غریب کسان ہے۔ کاروباری طبقے کو سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اُنہیں وَن ونڈو کے آپریشن کے ذریعے سہولتیں دیں گے۔ گھر بیٹھے کاروبار شروع کرنے والوں کے لیے وسائل مہیا کیے جائیں گے۔ نوجوانوں کو سودفری قرض فراہم کریں گے۔ کرپشن روکنے کے لیے ٹھوس میکینزم لے کرآئیں گے۔ پنجاب میں ہیلتھ کارڈ بحال کریں گے۔ 12 ہفتوں میں ایئر ایمبولینس سروس شروع کریں گے۔
رمضان المبارک کے لیے نگہبان کے نام سے ایک ریلیف پیکیج بنایاگیا ہے، مستحقین کواُن کی دہلیز پر اُن کاحق پہنچایا جائے گا۔ فیس کا بوجھ اُٹھانے کی سکت نہ رکھنے والے ذہین طلباء وطالبات کابوجھ حکومت اُٹھائے گی۔ کم ازکم 5 آئی ٹی سینٹر بنائے جائیں گے۔ طلباء کو لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس فراہم کیے جائیں گے۔ طلباء اور دیگر نوجوانوں میں الیکٹرک موٹربائیکس تقسیم کی جائیں گی۔ پنجاب میں سکول ٹرانسپورٹ سسٹم دیاجائے گا۔ امیراور غریب طالب علموں کے درمیان تعلیم کافرق ختم کیا جائے گا۔ انٹرسٹی اور انٹراسٹی سڑکیں محفوظ بنائی جائیں گی اور ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں میٹروبس سروس شروع کی جائے گی۔
وزیرِاعلیٰ پنجاب نے جو 5سالہ منصوبہ دیاہے اُن میں سے اگر آدھے منصوبوں پربھی عمل ہوگیا تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پچھلے 16ماہ کی اتحادی حکومت میں نوازلیگ کی مقبولیت کو جو جھٹکے لگے ہیں اُن کاعلاج ممکن ہوگا۔ ہمیں محترمہ مریم نوازکے عزمِ صمیم پر یقین لیکن ملکی حالات جس نہج پرچل رہے ہیں، اُنہیں مدِنظر رکھتے ہوئے یہ سب کچھ اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور نظر آتا ہے۔ ملکی معیشت ڈانواں ڈول اور حالت یہ کہ ایک ارب 10کروڑ قرضے کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر سرِتسلیم خم کرنا پڑا۔
وزیرِاعظم میاں شہبازشریف کہتے ہیں کہ اُنہیں مزید 3ارب ڈالر قرضے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ تلخ حقیقت یہ کہ حکمران خوب جانتے ہیں کہ پاکستان اِس حالت تک کیسے پہنچا۔ وہ اِس کااعلاج بھی جانتے ہیں مگر عمل درآمد پر ہچکچاہٹ کا شکار۔ کون نہیں جانتاکہ بجلی چوری سے اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ ٹیکس کے پیسے کی زیادہ تر رقم ٹیکس اکٹھا کرنے والوں کی جیب میں چلی جاتی ہے۔ خود میاں شہبازشریف نے کہاکہ اگر 100روپے ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے تو 300 روپے ایف بی آرکی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ کرپشن اور مہنگائی کا عفریت مُنہ کھولے کھڑا ہے اور غریب نانِ جویں کامحتاج۔
یہ بجاکہ پنجاب میں نوازلیگ کی حکومت کوکسی اتحادی سہارے کی ضرورت نہیں لیکن جب تک مرکز مضبوط نہ ہوصوبوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی رہتی ہیں۔ مرکز میں نوازلیگ کی اتحادی حکومت ہے اور پاکستان میں اتحادی حکومتوں کاتجربہ کبھی خوشگوار نہیں رہا۔ اِسی لیے کچھ شَرپسند حکومت کے خاتمے کی مدت کا تعین کرتے ہوئے کبھی ایک سال اور کبھی دوسال کی پیشین گوئیاں کررہے ہیں۔
تاریخ سے ثابت کہ قومیں جب متحد ہوجاتی ہیں تو کوئی بڑی سے بڑی رکاوٹ بھی سدِراہ نہیں بن سکتی۔ یہاں مگریہ عالم کہ ایک جماعت ملک کوسری لنکا بنانے پر تُلی بیٹھی ہے۔ 2024ء کے عام انتخابات سے ثابت کہ اِس سیاسی جماعت کے پیروکار اچھی خاصی تعداد میں موجود، جنہیں سوائے شَرپسندی کے اور کچھ نہیں آتا۔ اُس کے جیل میں بیٹھے سربراہ نے آئی ایم ایف کو خط لکھوا کرتنبیہ کی کہ پاکستان کوہرگز قرضے کی آخری قسط نہ دی جائے۔ اُس قسط کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تو ہوچکا لیکن یہ ثابت ہوگیا کہ تحریکِ انصاف کوملک سے ہمدردی ہے نہ قوم سے۔
ایک اور تازہ مثال کہ جب محترمہ مریم نوازنے تاریخِ پاکستان کاسب سے بڑا رمضان پیکیج دیتے ہوئے راشن کے 75لاکھ تھیلے ضرورتمندوں کے گھروں تک بلاامتیاز پہنچائے تواِنہی شَرپسندوں نے شور مچادیاکہ اِن تھیلوں پرمیاں نوازشریف کی تصویر کیوں تھی؟ مریم نواز صاحبہ نے تواِس بیہودہ الزام کو پرکاہ برابر حیثیت نہیں دی لیکن اِس الزام سے اپوزیشن کے خبثِ باطن کاپتہ ضرور چل گیا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جب تک اِس جماعت سے آہنی ہاتھوں سے نہ نپٹا جائے گا وہ اپنی حرکتوں سے باز آنے والی نہیں۔