اِس وقت میں وطن کی فضاؤں سے دور امریکہ کی ریاست ٹیکساس کی شہر ہیوسٹن میں ہوں۔ پچھلے تین چار دنوں سے ملک کے سیاسی حالات سے بے خبر کہ طویل سفر کی تھکن نے دنیاومافیہا سے بے خبر کردیا۔ اب تھوڑا ہوش آیاتو سوچا کہ اپنے قارئین سے رابطہ کروں کہ گزشتہ کئی برسوں سے وہ میری فیملی ہی توہیں۔ اِسی لیے اُن کے ساتھ کالموں کی صورت میں اپنا دُکھ سُکھ بانٹتی رہتی ہوں۔ اب چونکہ وقتی طورپر سیاسی جماعتوں کی قلابازیوں سے بے خبر ہوں اِس لیے سوچا کہ کیوں نہ اُس زبان کا ذکر ہوجائے جسے قومی زبان کادرجہ تو دیا گیا لیکن عمل درآمد مفقود۔
معزز قارئین آپ توجانتے ہی ہوں گے لیکن شاید نسلِ نَو اِس سے آگاہ نہیں کہ "اُردو" کو انگریز مستشرق "مورتھ" یعنی مسلمانوں کی زبان کہاکرتے تھے اور مسلمان عمومی طورپر یہی زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ اِس امر کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ڈاکٹڑ محمد اقبالؒ نے پاکستان کاجو خواب دیکھا اُس کے لیے اُنہوں نے اُردو زبان ہی کا انتخاب کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمان اُردوزبان کوخوب جانتے ہیں۔ اِسی لیے اُردو زبان تحریکِ آزادی کا نعرہئی مستانہ بنی۔ تحریکِ پاکستان تک پہنچتے پہنچتے یہ ایک مکمل، جامع اور مربوط زبان کی شکل اختیار کرچکی تھی اور تمام اصنافِ ادب کے ادباء وشعراء کا واحد اور واضح ذریعہ بن کر اپنا آپ منواچکی تھی۔ اِسی لیے تو داغ دہلوی نے کہا
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے
حیرت ہے کہ آج بھی اُردو بھارت کی چھَٹی بڑی زبان ہے جسے 7ریاستوں میں قومی زبان کادرجہ حاصل ہے لیکن پاکستان جس کی آزادی کی ساری تحریک اِسی زبان کے بَل پر اُٹھائی گئی اور حضرت قائدِاعظمؒ نے اِسے قومی زبان کادرجہ دیا۔ وہ آج تک قومی زبان میں ڈھل سکی نہ دفتری بابوؤں نے اِسے پرکاہ برابر حیثیت دی۔
ہم بھول چکے کہ تشکیلِ پاکستان کے بعد بانیئی پاکستان قائدِاعظمؒمحمدعلی جناح نے اُردو کو قومی زبان قرار دیا لیکن 76سال گزرنے کے باوجود آج بھی ہماری قومی زبان اپنی یتیمی پر ماتم کناں ہے۔ دفتروں میں بیٹھے بابو (بیوروکریٹس) اُردوزبان سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ جوشخص اُن کے سامنے اُردو میں بات کرے اُسے جاہل، اُجڈ اور گنوار سمجھا جاتا ہے لیکن مُنہ ٹیڑھا کرکے انگریزی کے چار حرف بولنے والوں کواعلیٰ تعلیم یافتہ۔ کیا یہ عین حقیقت نہیں کہ دنیاکا ہرملک خواہ وہ چھوٹا ہویا بڑااپنی قومی زبان میں ہی نہ صرف بات کرنا پسند کرتا ہے بلکہ دفتری خط وکتابت بھی اُسی زبان میں ہوتی ہے۔
یہاں مگر عالم یہ کہ ذہنی غلاموں نے تعلیم وتعلم کے معاملے میں بھی اُردومیڈیم کی بجائے انگلش میڈیم کو رواج دے دیا۔ اب پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے بعد سرکاری تعلیمی ادارے بھی انگلش میڈیم کی طرف چل نکلے ہیں جبکہ اپنے مذہب، اپنی اقدار اور اپنی تہذیب سے جُڑے رہنے کے لیے اپنی زبان بھی ضروری ہے مگر کیا کیجئیے کہ ہمارے رَہنماء بھی جب بیرونی دوروں پر ہوتے ہیں تو انگریزی میں ہی بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ اگر وہ اتنے ہی انگریزی کے عشق میں مبتلاء ہیں توپھر جب عام انتخابات میں وہ ووٹوں کی بھیک مانگنے نکلتے ہیں تو پھر انگریزی میں ہی خطاب کیا کریں۔
حقیقت یہ کہ انگریزوں کی سوسالہ غلامی نے ہمیں ذہنی طور پر اتنا مفلوج کردیا ہے کہ ہم آج بھی اپنے آپ کو غلام ہی سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمیں انگریزی لباس، انگریزی تہذیب ومعاشرت مرغوب ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ جب ہماری تہذیب اپنی نہیں، تمدن اپنا نہیں، لباس اپنا نہیں، اقدار اپنی نہیں اور زبان اپنی نہیں توپھر ہماری پہچان کیا ہے؟ بدقسمتی سے ہم نے مغربی تہذیب کالبادہ اوڑھا اور اِسی کے زیرِاثر سکولوں کالجوں میں دھڑلے سے ناچ گانے کی محافل سجائی جانے لگیں۔ وہ بچہ جس کی ذہنی تربیت دینِ مبیں کے زیرِاثر ہونی چاہیے تھی وہ اپنی اسلامی تہذیب وروایات سے مکمل طورپر نابَلد ہوچکا۔
ہم نے 1979ء میں مقتدرہ قومی زبان کاادارہ بنایا۔ 1973ء کے آئین کے مطابق یہ ادارہ اُسی وقت تشکیل پاجانا چاہیے تھا لیکن اِسے بنانے میں بھی 6سال لگے۔ اِس ادارے کا بنیادی مقصد اُردوکو دفتری زبان بنانا تھا لیکن صورتِ حال یہ کہ اِس ادارے کی کاوشوں سے کئی ضخیم جلدیں تو وجود میں آگئیں لیکن وہ سب لائبریریوں کی زینت۔ شاید "کاٹھے بابو" مقتدرہ قومی زبان کی اِس تحقیق وتدقیق کوسب سے زیادہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں۔ جن کے اپنے بچے یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کررہے ہوں اور جنہیں اپنا روشن مستقبل وہیں نظر آتاہو وہ بھلا اُردو کو کیوں مروج ہونے دیں گے۔
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جوادایس خواجہ نے اگست 2015ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کاحلف اُٹھایا اور ستمبر 2015ء کو اُنہوں نے 3رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے اُردو زبان کورائج کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔ یہ شاید پاکستان کی تاریخِ عدل کاپہلا فیصلہ تھا جسے اُردومیں لکھا گیا۔ فیصلے میں لکھا گیاکہ آئین کا اطلاق ہم سب کا فرض ہے۔
1973ء کے آئین میں درج ہے کہ 15سال کے اندر انگریزی کی جگہ اُردو کوسرکاری اور دفتری زبان کے طورپر رائج کیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 251کے تحت اُردوکو دفتری زبان کے طورپر فوری طورپر نافذ کیا جائے اور وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان استعمال کی جائے۔ جب چیف جسٹس صاحب کایہ فیصلہ آیا تب نوازلیگ کی حکومت تھی۔ حکمرانوں نے سپریم کورٹ سے 3ماہ کی مدت طلب کی۔ اب اِس مدت کو گزرے ہوئے بھی 9سال کاعرصہ گزر چکا لیکن اُردوکی "یتیمی" برقرار۔
یہ بجاکہ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے جسے نظرانداز نہیں کیاجا سکتا لیکن ہمارا میڈیم انگریزی کی بجائے اُردو ہونا چاہیے اور ہمیں اِس کی ترویج کے لیے کم ازکم گفت وشنید تواُردو میں کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت کاایک حکم اور اُس حکم پر سختی سے عمل اُردو کو دفتری زبان کے طورپر رائج کرسکتا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان محترم قاضی فائزعیسیٰ نے عدالتی کارروائی میں ایک نئی طرح ڈالی۔ اُنہوں نے پہلے ہی فُل کورٹ کی عدالتی کارروائی پوری قوم کو براہِ راست دکھانے کاحکم صادر فرمایا۔
اِس براہِ راست کارروائی کے دوران اُنہوں نے فرمایاکہ اگر زیادہ تر کارروائی اُردوزبان میں ہوتو بہتر ہے تاکہ قوم کوبھی سمجھ آسکے۔ اب بھی کسی بھی عدالتی کیس کی براہِ راست کارروائی میں چیف صاحب زیادہ تر اُردوزبان میں ہی بات کرتے ہیں جو اُن کی اُردوسے محبت کا واضح ثبوت ہے۔ چیف جسٹس صاحب کے اِس خوبصورت انداز سے اُمید بندھ چلی ہے کہ عنقریب انگریزی زبان کی غلامی کے طوق سے نجات مِل جائے گی۔ اُن کی خدمتِ عالیہ میں عرض ہے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کا ستمبر 2015ء کافیصلہ تاحال تشنہئی تکمیل ہے۔ وہ اِس معاملے پر اَزخود نوٹس لے کر قومی زبان پر احسانِ عظیم کرسکتے ہیں۔ وہی ایک ایسی شخصیت ہے جو "ابھی یا کبھی نہیں" پر عمل درآمد کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔