آجکل پاکستان میں صدارتی نظامِ حکومت کے نفاذ کی سرگوشیاں فضاؤں میں۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث شدّومد سے جاری ہے اور دروغ بَر گردنِ راوی یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی نظام کے حق میں رائے لی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ ، لیکن اِس سے پہلے پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے 1957ء تک کی دہائی صدارتی نظامِ جمہوریت ہی کی ایک قسم تھی کیونکہ اِس میں گورنر جنرل ہمہ مقتدر ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اِس دَور میں کئی وزرائے اعظم کی چھٹی کروائی گئی۔
یہ وہی دَور ہے جس میں بھارتی وزیرِاعظم جواہرلال نہرو نے طنز کیا تھا کہ وہ اتنے پائجامے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیرِاعظم بدلتے ہیں۔ 1958ء سے 1969ء تک صدر ایوب خاں کا دَورِ حکومت رہا۔ اِسی عرصے میں 1962ء کا صدارتی آئین تشکیل دیا گیا۔ یہ وہی دَور ہے جس میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بیج بویا گیا جو 1969ء تک تن آور درخت بن چکا تھا۔ 1969ء سے 1971ء تک صدر یحییٰ خاں کا دورِحکومت رہا جس میں 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دولخت ہوا۔
پھر ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے۔ وہ بھی دسمبر 1971ء سے اگست 1973ء تک صدرِ پاکستان رہے۔ پھر 1973ء کے آئین کے ذریعے پارلیمانی نظامِ جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی لیکن 1977ء میں ضیاء الحق کے مارشل لاء کے ذریعے ایک دفعہ پھر ملک پر صدارتی نظام ِ حکومت مسلط ہوا جو اُن کی طیارہ حادثے میں موت (1988ء) تک قائم رہا۔ یہی وہ دَور ہے جس میں پاکستان نے افغان جنگ میں شرکت کی اور کلاشنکوف کلچر نے جنم لیا۔
ضیاء الحق ہی کے دَور میں آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 58-B2 کا نفاذ ہوا۔ اِسی آئینی ترمیم کے تحت ضیاء الحق نے منتخب وزیراعظم محمد خاں جونیجو کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ آٹھویں ترمیم ہی کے ذریعے صدر غلام اسحاق خاں نے پہلے 1990ء میں وزیرِاعظم بینظیر بھٹو اور پھر 1993ء میں وزیرِاعظم نوازشریف کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ اِسی آئینی ترمیم کے تحت پیپلزپارٹی کے اپنے ہی منتخب کردہ صدر فاروق لغاری نے دوسری دفعہ بینظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا۔
اکتوبر 1999ء میں پرویز مشرف نے منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹا۔ پرویزمشرف اگست 2008ء تک ہمہ مقتدر صدر رہا۔ پرویز مشرف ہی کے دَور میں پاکستان اندھی اور بے چہرہ افغان جنگ میں شریک ہوا۔ پرویز مشرف نے ایک فون کال پر امریکہ کو وہ کچھ بھی
دے دیا جس کا اُس نے مطالبہ بھی نہیں کیا تھا۔ یہ وہی دَور ہے جس میں تحریکِ طالبان پاکستان نے جنم لیا۔ امریکہ کی اِس جنگ میں ہم نے فوجی جوانوں سمیت لگ بھگ 80 ہزار افراد شہید کروائے، اپنی معیشت کا بیڑا غرق کیا اور اِس اندھی جنگ میں اربوں ڈالرز کا نقصان اُٹھایا۔ تحریکِ طالبان پاکستان نامی ناسور اب بھی قائم ہے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد افغان طالبان کے منع کرنے کے باوجود ایک دفعہ پھر سَر اُٹھا رہا ہے۔ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کا جائزہ لینے سے عیاں ہوتا ہے کہ اس میں دوتہائی حصّہ صدارتی نظامِ حکومت کا بنتا ہے۔ اِس تمام عرصے میں ملک کا بھلا ہوا نہ قوم کا۔ حقیقت یہ کہ نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی اگر نیتوں میں فتور ہو تو بھلائی کی توقع عبث۔
صدارتی نظامِ حکومت کی تاریخ کا مختصر جائزہ لینے سے عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام کی روح کسی ایک فرد میں طاقت کا ارتکاز ہے، ایسا ارتکاز کہ ہمہ مقتدر جو مَن میں آئے کر گزرے اور اُس کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہو۔ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ نظامِ حکومت تو کم از کم پاکستان میں آمریت کی بدترین قسم ہے۔ اب پاکستان میں صدارتی نظامِ حکومت کسی کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن 1973ء کا آئین کسی ایسے ریفرنڈم کی ہرگز اجازت نہیں دیتا جو آئین کی روح کے منافی ہو۔
1973ء کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہی پارلیمانی نظامِ حکومت پر استوار ہے اور اِس بنیاد کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سے کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا۔ اگر آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنا مقصود ہو تو پھر اِسی سوال پر الیکشن لڑا جائے گا اور الیکشن جیتنے کی صورت میں ہی بنیادی ڈھانچہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ آئینی طور پر ڈھانچہ تبدیل کرنے کی کوئی صورت موجود نہیں۔ اِس لیے یہ بحث ہی فضول ہے کہ کسی ریفرنڈم کے ذریعے پارلیمانی نظامِ حکومت کو صدارتی نظامِ حکومت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
ویسے بھی ہمارے ہاں نظام پارلیمانی ہو یا صدارتی، ہماری سیاست ہمیشہ شخصیات کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ آج بھی پیپلزپارٹی کی سیاست ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے گرد گھوم رہی ہے اور کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ جماعتی اقتدار اِس خاندان سے باہر بھی جا سکتا ہے۔ نوازلیگ کی سیاست سے اگر شریف خاندان کو الگ کر دیا جائے تو باقی کچھ نہیں بچتا۔ کسی بھی نون لیگئیے سے پوچھ کر دیکھ لیں اُس کا جواب یہی ہوگا کہ ووٹ نوازشریف کا ہے۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ میاں نوازشریف کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے تاحیات نااہل کیا ہوا ہے۔
اگر تحریکِ انصاف کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو محترم عمران خاں نے ہر اُس شخص کو کان سے پکڑ کر نکال باہر کیا جس نے اُن سے اختلاف کیا۔ پارٹی انتخابات میں خاں صاحب نے پہلے خود ہی جسٹس (ر) وجیہ الدین کو انکوائری کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا لیکن جب جسٹس صاحب نے خاں صاحب کی مرضی کے خلاف کچھ اصحاب کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے اُن کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کی سفارش کی تو جسٹس صاحب کو ہی پارٹی سے نکال دیا۔
جاوید ہاشمی کو منتوں ترلوں کے ساتھ پارٹی میں شامل کرکے صدر کا عہدہ پیش کیا لیکن جب ہاشمی صاحب نے خاں صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے پریس کانفرنس کی تو اُنہیں فارغ کر دیا گیا۔ تحریکِ انصاف کے بانی رکن اور معروف وکیل حامد خاں کو بھی اختلاف کی بنا پر نکال باہر کیا۔ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے فارن فنڈنگ کیس میں سچ بولا تو اُنہیں بھی تحریکِ انصاف سے نکال دیا گیا، یہ الگ بات ہے کہ اکبر ایس بابر آج بھی اپنے آپ کو پارٹی کا بنیادی رکن قرار دیتے ہیں۔ (گزشتہ 8 سالوں سے یہی فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں زیرِ التوا اور فیصلے کا منتظر)۔
قومی اسمبلی کے رکن نور عالم خاں نے پارلیمنٹ میں خاں صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کی اگلی تین قطاروں میں بیٹھے ہوئے پارلیمنٹیرینز کے نام ECL میں ڈال دیں کیونکہ اِن کی کرپشن اظہرمِن الشمس۔ خاں صاحب کو نورعالم خاں کا یہ گستاخانہ سچ پسند نہ آیااور اُسے نہ صرف شوکاز نوٹس دیا بلکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی رکنیت سے بھی فارغ کر دیا۔ وزیرِ دفاع پرویز خٹک نے پارٹی میٹنگ میں کھری کھری سنائیں لیکن چونکہ پرویز خٹک کا گروپ بہت مضبوط ہے اِس لیے اُسے خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کا صدر بنا دیا گیا۔
تحریکِ انصاف کے سابق سیکرٹری اطلاعات احمد جواد کے انکشافات بھی حیران کُن۔ اُسے بھی شو کاز نوٹس ملاجس کا جواب دیتے ہوئے اُس نے خاں صاحب سے اُلٹا 30 سوالات کرتے ہوئے ہوشربا انکشافات کیے۔ دسمبر 2021ء میں خیبرپختونخوا کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ کے پی کے میں تحریکِ انصاف کی بِلاشرکتِ غیرے حکومت ہے اِس لیے عام خیال یہی تھا کہ اِن سترہ اضلاع میں تحریکِ انصاف کلین سویپ کرے گی لیکن اِن اضلاع میں بھی تحریک کو بُری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور بازی لے گئے مولانا فضل الرحمٰن۔
ہمہ مقتدر چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خاں نے جلال میں آکر پاکستان میں تحریکِ انصاف کی تمام تنظیموں کو فارغ کر دیاحالانکہ پارٹی آئین کے مطابق وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر صدارتی نظام کا نفاذ ہو جائے تو کیا خاں صاحب کی ذات موجودہ طاقت سے بڑھ کر بھی لطف اندوز ہو سکتی ہے؟