قحط الرجال کا یہ عالم کہ ایک وزیر با تدبیر جس کو سینٹ میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنا بھی نہیں آتا، وہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین۔ قائدِاعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رَگ قرار دیا اور "قائدِاعظم ثانی" نے شہریار آفریدی کو کشمیرکمیٹی کا چیئرمین بناکر کشمیریوں کو اُن کی حیثیت یاد دلانے کی کوشش کی۔ شہریارآفریدی وہی شخص ہے جو قرآن پر حلف دینے کو تیار تھا کہ اُس نے اپنی آنکھوں سے رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے ہیروئن بَرآمد ہوتے دیکھی۔ تاحال اینٹی نارکوٹکس کا ادارہ وہ ویڈیو سامنے لا سکا نہ شہریار آفریدی۔ وزیرِموصوف اور اُس جیسے کئی "تحفے" تحریکِ انصاف کی شان بڑھا رہے ہیں۔ زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی جن کا پاکستان سے کچھ لینادینانہ پاکستانی سیاست سے۔ کہتے ہیں کہ جب جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو اُس سے چوہے سب سے پہلے چھلانگیں لگاتے ہیں۔ یہ تحفے بھی جونہی "خانِ اعظم" کو زوال آیا، اپنے بریف کیس اُٹھا کر وہیں "پھُر" ہو جائیں گے جہاں سے درآمد کیے گئے تھے۔ حفیظ شیخ بھی اُنہی میں سے ایک ہے جوسابق گورنر محمد زبیرکے بقول 43 سالوں میں صرف اُس وقت پاکستان آتاہے جب اُس کی کار پر جھنڈا لگانے کی حامی بھری جاتی ہے۔ وہ پرویزمشرف کا وزیرِخزانہ تھا اور پیپلزپارٹی کا بھی۔ اب اُسے آئی ایم ایف کے حکم پر مشیرِخزانہ سے وزیرِخزانہ بناکر مرکز سے سینٹ کا انتخاب جتوانے کی کوشش کی گئی جس میں حکومت کو بُری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس ایک شکست سے پوری حکومت لرزہ بَر اندام کہ اُس کے اپنوں نے ہی حفیظ شیخ کو مسترد کر دیا۔
حفیظ شیخ کے مدّ ِ مقابل پی ڈی ایم کے متفقہ اُمیدوار، سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی تھے۔ تحریکِ انصاف کے بزرجمہروں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یوسف رضاگیلانی حکومت کے اتحادی پیرپگارا کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ مخدوم حسن محمود کی ایک بہن یوسف رضا گیلانی کی والدہ اور دوسری پیرپگارا کی اہلیہ ہیں۔ پیر صدرالدین راشدی سے گیلانی صاحب کی صاحبزادی کی شادی ہوئی ہے اور جہانگیر ترین کی اہلیہ یوسف رضاگیلانی کی کزن ہیں۔ خیال یہی ہے کہ کھُل کر سامنے نہ آنے کے باوجود پیرپگارا اور جہانگیرترین نے گیلانی صاحب ہی کی حمایت کی ہوگی۔ دوسری طرف چودھری پرویزالٰہی کی کاوشوں سے پنجاب میں سینٹ کا انتخاب ہونے کی بجائے افہام وتفہیم سے نشستوں کی تقسیم عمل میں آئی۔ اِس لیے یقیناََ چودھری پرویز الٰہی بھی پی ڈی ایم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوں گے۔ ویسے بھی چودھری صاحب کی نظریں بڑی دیر سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ پر ہیں اِس لیے وہ بھی سوچتے ہوں گے "مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیاہے"۔
حکومت کی اتحادی جماعتوں کو تو رکھیے ایک طرف، خود تحریکِ انصاف کے اندر سینٹ کے ٹکٹوں کے تقسیم پر بہت شور اُٹھا۔ سندھ اور بلوچستان کے صوبائی صدور کو یہ گلہ کہ اُن سے مشاورت نہیں کی گئی۔ سندھ کے صوبائی صدر لیاقت جتوئی تو کھُل کر سامنے آگئے۔ اُنہوں نے یہ الزام لگایا کہ سیف اللہ ابڑو کو 35 کروڑ لے کر ٹکٹ بیچا گیا۔ فیصل واوڈا کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات میں اُس نے نے اپنی دوہری شہریت کو چھپایا۔ اُس کا کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں تھا لیکن اُسے بچانے کے لیے سینٹ کا ٹکٹ دے دیا گیا۔ سینٹ کا انتخاب جیتنے کے بعد اُس نے 3 مارچ کو ہی قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیاجس پراسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ مستعفی ہونے کے بعد فیصل واوڈا کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتالیکن اُس نے الیکشن کمیشن میں جو بیان حلفی جمع کرایا وہ بظاہر جھوٹا ہے، اِس پر الیکشن کمیشن فیصلہ کرے۔ اب اگر الیکشن کمیشن یہ فیصلہ کر دے کہ فیصل واوڈا صادق وامین نہیں رہاتو وہ سینٹ کی نشست سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ تحریکِ انصاف کے اندرسے یہ آوازیں بھی بلند ہوئیں کہ سینٹ کے لیے صرف ارب، کھرب پتیوں کو نوازا گیا۔ اگر اِس تناظر میں دیکھا جائے تو یوں محسوس ہوتاہے جیسے تحریکِ انصاف ہی کے ارکانِ قومی اسمبلی نے اپنا غصّہ نکالاکیونکہ باقی تمام صوبوں میں نتائج تقریباََ وہی آئے جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ اگر آئی ایم ایف کے نمائندے حفیظ شیخ کو بہرصورت جتوانا مقصود تھا تو اُسے خیبرپختونخوا سے سینٹ کا ٹکٹ دے کر آسانی سے جتوایا جا سکتا تھا لیکن بزرجمہروں نے اُسے مرکز سے ٹکٹ دے کر خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ یقیناََ اِس میں کپتان کی نرگسیت، ضد، انّا اور تکبر کا بھی بہت ہاتھ ہے کیونکہ 4 مارچ کو قوم سے خطاب میں اُن کا لہجہ انتہائی سخت تھا اور وہ حسبِ عادت الزام تراشیوں کا ٹوکرا اُٹھا کر گرج برس رہے تھے۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد عمران خاں نے بہت سے لوگوں کو سرِعام موردِالزام ٹھہرایا۔"کتنے میں بِکے" اور "پینتیس پنکچر" کا شور گلی گلی میں تھا۔ اُس وقت الیکشن کمیشن سمیت کسی نے خاں صاحب کو مُنہ توڑ جواب دینے کی بجائے خاموشی میں ہی مصلحت جانی۔ اب مگر حالات بدل چکے۔ الیکشن کمیشن کی سربراہی سکندرسلطان راجہ کے پاس ہے جنہیں سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران طلب کیا گیا اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ وہ اوپن بیلٹ کا کوئی راستہ نکالیں لیکن اُنہوں نے دوٹوک الفاظ میں یہی کہا کہ اوپن بیلٹ کے لیے آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ تب لوگوں نے محسوس کیا کہ تاریخِ پاکستان میں پہلی بار الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خودمختار ادارے کی حیثیت سے سامنے آیاہے۔ ڈَسکہ کے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے نے اِس پر مہرِتصدیق ثبت کر دی اور حکومتی وزراء کے شدید دباؤ کے باوجود آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ بیلٹ سے سینٹ کے انتخابات کروائے جس پر وزیرِاعظم نے اپنے قومی خطاب میں شدید تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن نے اُن لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جنہوں نے سیکرٹ بیلٹ کی وجہ سے مال بنایا۔ اُنہوں نے کہا کہ ای سی پی نے سپریم کورٹ میں اوپن بیلٹ کی مخالفت کی جبکہ عدالت نے متعدد بار کہا کہ ای سی پی کی ذمہ داری ہے کہ شفاف اور ایماندارانہ الیکشن کروائے۔ وزیرِاعظم کے خطاب سے پہلے حکومتی وزراء بھی الیکشن کمیشن پر ایسے ہی الزامات لگا چکے تھے۔ جس کا الیکشن کمیشن نے نوٹس لیتے ہوئے پیمرا سے وزراء کی پریس کانفرنس کی ویڈیو طلب کر لی ہے۔ شنید ہے کہ ای سی پی وزیرِاعظم کے قومی خطاب کا بھی نوٹس لے رہی ہے۔ شاید تحریکِ انصاف کے اکابرین نہیں جانتے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہائیکورٹ کے اختیارات حاصل ہیں اور وہ توہین کے مرتکب افراد کو سزا دینے کا مجازہے۔
حکومت کو اُن 16 اراکینِ قومی اسمبلی کے نام معلوم ہیں جنہوں نے حفیظ شیخ کی بجائے یا تو یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا یا پھر جان بوجھ کر اپنا ووٹ ضائع کر دیا لیکن فی الحال اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ یہاں بھی وہی حربہ استعمال کیا جائے گا جو 2018ء کے بعد خیبرپختونخوامیں استعمال کیا گیا۔ خاں صاحب کے پاس 2018ء کے سینٹ کے انتخابات کے فوراََ بعد وہ ویڈیو پہنچ چکی تھی جس میں اُن کی جماعت کے 20 اراکینِ صوبائی اسمبلی پیسے لے کر منحرف ہوئے لیکن اُن منحرفین کے خلاف اُس وقت ایکشن لیا گیا جب کے پی کے اسمبلی کی بقیہ مدت صرف دو ماہ تھی۔ سوال یہ ہے کہ خاں صاحب نے ایسے لوگوں کو ٹکٹ ہی کیوں جاری کیے جن کے ضمیر کھنکتے سِکّوں کی جھنکار سُن کر مُردہ ہو جاتے ہیں۔ اِس کا کیا علاج کہ خاں صاحب کو جیتنے والے گھوڑوں کو ساتھ ملانے کا شوق ہی بہت ہے اِس لیے "آپے پھاتھڑیے، تینوں کون چھڈاوے"۔