غرور وتکبر رَبِ لم یَزل کو ہرگز پسند نہیں۔ فرقانِ حمید میں وضاحت فرما دی گئی کہ جباروقہار کی رسی دراز مگر پکڑ سخت۔ وہ جب جلال میں آتا ہے تو پھر کوئی فرعون باقی بچتا ہے نہ نمرود وشداد۔ سورۃ البروج آیت 12 میں فرما دیا گیا "یقیناََ تیرے رَب کی پکڑ بہت سخت ہے"۔ اِس لیے ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ گرفت کرنے پر آتا ہے تو مجرموں کا نام ونشان مٹا دیتا ہے۔ اِس آیتِ مبارکہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی گرفت آتی ضرور ہے خواہ جلد آئے یا بدیر۔ قُرآنِ مجید فرقانِ حمید میں یہ موضوع جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے لیکن سمجھنے والوں کے لیے۔
وہ شخص جس کی انا، ضد اور نرگسیت ہمالیہ سے اونچی تھی، جو اپوزیشن کا وجود تک مٹا دینے کے درپے تھا، جو اپوزیشن سے ہاتھ تک ملانا پسند نہیں کرتا تھا اور جو زمینی خُدا بنا بیٹھا تھا، وہی آج "دیکھو مجھے جو دیدہئ عبرت نگاہ ہو" کی عملی تصویر بنا دروازے کی اوٹ سے جھانک رہا ہے کہ شاید کوئی بھولا بھٹکا ہی نظر آجائے۔ حقیقت مگر یہ کہ وہ جو کبھی منتظرِنگاہِ التفات تھے، آج نظریں چُرا کے اور پہلو بچا کے یہ جا وہ جا۔
ہم نے اکتوبر 2011ء کا مینارِ پاکستان کا جلسہ بھی دیکھا جہاں انسانوں کا ہجوم جو اپنی تشنہ آرزوؤں کی تکمیل کے لیے وہاں جمع ہوئے۔ پھر وہ سٹیج پر نمودار ہوا اور آتے ہی نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ ایسا منظر بھلا کسی نے کب دیکھا تھا۔ اُس کی اِس ادا پہ سبھی مرمٹے۔ لکھاریوں نے مدح سرائی کے لیے قلم سنبھال لیے اور الیکٹرانک میڈیا اُسے آسمان کی رفعتوں تک پہنچانے کے لیے مستعد ہوگیا۔ چند ہی اہلِ فکر ونظر ہوں گے جنہیں اُس کے اندر چھپے ہوئے کریہہ شخص کی جھلک نظر آئی ہو۔ اُن کے لبوں پہ بھی مگر خامشی کی مُہریں کہ اُس ماحول میں اُس کے خلاف کچھ کہنے کا یارا ہی نہ تھا۔
یہ تو بہت بعد میں پتہ چلا کہ وہ سب کچھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کا رچایا ہوا ڈراما تھا اور ظہیر الاسلام اُس کا دست وبازو بننے کے لیے مستعد۔ وہ جہاں بھی گیا لوگ جوق در جوق اُس کے جلسوں کی رونق بڑھاتے رہے۔ وجہ ایک اور بھی تھی کہ ایک طرف تو وہ سٹیج سے اللہ اور رسول کا نام لیتا تھا تو دوسری طرف عین اُسی وقت ڈی جے کی دھنوں پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں باہم والہانہ رقص کیا کرتے تھے۔
سیاسی جلسوں کو میوزیکل کنسرٹ میں ڈھالنے کا فن وہ خوب جانتا تھا۔ گویا "رِند کے رِند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی"۔ اِس لحاظ سے اُسے اداکار تو کہا جا سکتا ہے سیاستدان نہیں۔ اگر وہ سیاستدان ہوتا تو اپنے پیروکاروں کو کبھی ڈھال نہ بناتا۔ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دیکھا کہ عمران خاں زمان پارک میں نوجوانوں اور خواتین کو ڈھال بنا کر خود بُلٹ پروف گھر میں چھپا رہا۔
ہم نے اِنہی آنکھوں سے پیپلزپارٹی کے جیالوں کو جیلیں بھگتتے اور کوڑے کھاتے دیکھا۔ نوازلیگ کے متوالے بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے لیکن اپنی جماعت کے ساتھ نظریاتی وابستگی پر کوئی سمجھوتا نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں کے نظریاتی کارکن ڈَٹ کر کھڑے رہے اور یہ جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے بچی رہیں۔ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کی قبر کو ووٹ ملتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کی بے پناہ کوششوں کے باوجود میاں نوازشریف 3 بار وزیرِاعظم بھی منتخب ہوا ہے جبکہ ایک ہی جھٹکے میں تحریکِ انصاف خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔ 100 سے زائد پنچھی پھُر ہو گئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
وجہ شاید کپتان کو تو نظر نہ آتی ہو لیکن صاحبانِ بصارت وبصیرت تو اُس وقت بھی یہی کہتے تھے کہ کپتان نے جن لوگوں کے لیے اپنے دَر وا کیے ہیں وہ دورِ ابتلاء میں کبھی اُس کا ساتھ نہیں دیں گے۔ کپتان سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کہاں ہے وہ "وسیم اکرم پلس" جس کی کرپشن اور حماقتوں کا وہ دفاع کرتا رہا؟ کہاں ہیں وہ شہزاد اکبر اور فرح گوگی جن کے بارے میں اُسے ایک لفظ سننا بھی گوارا نہیں تھا؟ کہاں ہیں وہ زلفی بخاری اور شہباز گِل جو اُس کی حمایت میں شمشیر برہنہ تھے؟ پرویز خٹک اور اسد قیصر کہاں ہیں؟ کہاں ہے وہ عمران اسماعیل جو تحریکِ انصاف کے لیے ترانے لکھا کرتا تھا؟ اُس نے "روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے" لکھا اور سندھ کی گورنری کا حقدار ٹھہرا؟
کہاں ہے وہ علی زیدی جو کہتا رہتا تھا کہ موت قبول ہے لیکن کپتان کا ساتھ چھوڑنا قبول نہیں؟ کہاں ہے وہ لال حویلی والا جو یہ درس دیا کرتا تھا کہ سیاست میں لاشوں کی ضرورت ہے اگر کوئی اور نہ ملے تو مجھے مار کر لاش کندھے پر اُٹھا لو؟ سب سے بڑھ کر کہاں ہے وہ فواد جہلمی جو آجکل نئی جماعت بنانے کے چکروں میں ہے؟ قصور صرف سیاسی حرکیات سے بے بہرہ کپتان کا کہ جس کی نگاہِ انتخاب ڈال ڈال پھدکنے والے پنچھیوں پر پڑی اور اُس نے اپنی جماعت کے بانی ارکان کو پیچھے دھکیل دیا۔
کپتان کی زندگی کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ روزِاوّل سے اُس کا ذہن سازشوں کے تانے بانے بُنتا رہتا تھا۔ کرکٹ کے میدان میں بھی وہ اپنے کزن ماجد خاں کو پیچھے دھکیل کر خود سامنے آیا اور میدانِ سیاست میں بھی اُس نے ایسا ہی کرنا چاہا لیکن وہ بھول گیا کہ سیاست کرکٹ کا میدان نہیں۔ وہ شاید کچھ اور دیر "شیروانی" کے مزے لوٹ لیتا لیکن سیاست کے جزوِلاینفک افہام وتفہیم سے تو اُس کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ فسطائی ذہن رکھنے والا کپتان کیا جانے کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے ہوتا ہے جس میں فسطائیت کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ خان اپنا دشمن آپ ہی تھا اور اُس نے جس نرگسیت کو سینت سنبھال کر رکھا، اُسی نے اُس کو یہ دن دکھائے۔
تاریخِ پاکستان گواہ کہ یہاں ہمیشہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹ ہی کی حکومت رہی۔ خان کے عروج وزوال کا سبب بھی یہی اسٹیبلشمنٹ تھی۔ خان کو تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ اُس نے 9 مئی کو "بم" کو لات ماری اور اب "پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں"۔ 9 مئی کے سانحے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کھُل کر سامنے آگئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر نے سخت ترین الفاظ میں یہ پریس ریلیز جاری کی "جو کام ملک کے ابدی دشمن 75 سالوں میں نہ کر سکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلاء ایک سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے گروہ نے کر دکھایا"۔
تمام کور کمانڈرز متفق کہ "جو سہولت کار، منصوبہ ساز اور سیاسی بلوائی اِن کارروائیوں میں ملوث ہیں اُن کی شناخت کر لی گئی اور اُن کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔ یہ تمام شر پسند عناصر اب نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے"۔ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ کے افسران سے آرمی چیف محترم جنرل سیّد عاصم منیر نے جو خطاب کیا وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے فرمایا کہ عوام اور فوج کے رشتے کو کمزور کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ عوام نے فوج سے محبت کے حالیہ اظہار سے دشمن کے مذموم عزائم کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ اُنہوں نے فرمایا "اندرونی عناصر اور بیرونی قوتوں کے درمیان گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ اندرونی وبیرونی عناصر کا گٹھ جوڑ عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے تھا"۔
جنرل صاحب کے اِس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سانحہ 9 مئی عمران خاں کی گرفتاری کا جذباتی ردِعمل نہیں تھا بلکہ یہ ایک سازش تھی جس کے تانے بانے زمان پارک میں بُنے گئے۔ جنرل صاحب کے اِس بیان سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ اِس سازش کے پیچھے صرف عمران خاں ہی نہیں، بیرونی عناصر کا بھی ہاتھ ہے۔ ایسی صورت میں معاملہ بہت گھمبیر ہو جاتا ہے۔ جہاں معاملہ ملکی سلامتی کا ہو وہاں سیاسی مصلحتوں یا ذاتی تعلقات کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچتی۔ اِس لیے اعلیٰ عدلیہ سے بھی دست بستہ درخواست ہے کہ وہ بھی ذرا ٹھہر کے اپنی اداؤں پہ غور فرما لے۔
لاڈلے کی محبت میں جو کچھ ہو چکا سو ہوچکا لیکن اب نہیں۔ یہ دینِ مبیں کا تقاضہ بھی ہے اور دھرتی ماں کا قرض بھی کہ عدل کے اونچے ایوانوں میں بیٹھے انتہائی محترم "قاضی" میزانِ عدل کو مضبوطی سے تھام کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیں کیونکہ یہی اُن کے حلف کا تقاضہ ہے۔