صاحبان! کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ پورا ملک منفی جمود کا شکار ہے۔ اس لیے اب کوئی فکرکرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں، شاید تبدیلی آ جائے۔ مگر اس سے عام لوگوں کے مقدر پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑے گا۔ درست ہے کہ دو چار درجن، نئے ارب پتی خاندان معرض وجود میں آ جائیں گے۔
عوام کی قسمت وہی بدحالی ہے جو ستر برس سے ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ لہٰذا اب گھبرائے کیوں؟ جناب، نہ آہ و زاری سے بجلی کے ہوشربا بل کم ہوں گے، نہ کسی مہذب ریاست کی طرح آپ محفوظ زندگی گزار سکتے ہیں۔ جب بنیاد ہی کھوکھلی ہے اور دو عملی کا راج ہے۔ تو پھر خود بتائیے، بلکہ فرمائیے، آپ کے رونے دھونے سے کیا فرق پڑے گا؟
کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ 1977سے پہلے تک کی بات کر رہا ہوں۔ لاہور بلکہ پاکستان کا ہر شہر، باقی دنیا سے جڑا ہوا تھا۔ کراچی کے تو خیر کیا کہنے، وہ تو ایشیا کا پیرس تھا۔ لاہور بھی بین الاقوامی حیثیت کا شہر تھا۔ اس میں شام کے وہ تمام لوازمات موجود تھے، جو دنیا کے ہر خطے میں بکثرت موجود ہیں۔ دوبئی، ملایشیاء، مراکش اور ترکی موجودہ دور میں بھی سیاحت کے لیے جنت کا درجہ رکھتے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ تمام مسلمان ملک ہیں اور شاید ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔
اس زمانے کے لاہور کا ذکر تھوڑی دیر بعد میں کرتا ہوں۔ لائل پور کی بابت عرض کروں گا۔ جسے نامعلوم وجوہات کی بنا پر"شاہ فیصل آباد"بنا دیا گیا۔ پھر دوبارہ، ان دیکھی وجوہات کے تحت "فیصل آباد" کا نام دے دیا گیا۔ لائل پور بہر حال ایک حد درجہ بہترین شہر تھا۔ سڑکیں روز دھلا کرتی تھیں۔ ماشکی، سڑکوں سے متصل، سبزہ زاروں پر روز پانی چھڑکا کرتے تھے۔ تانگے ایک گھنٹی سے آراستہ ہوتے تھے۔
جو کوچوان کے پیروں میں ہوتی تھی۔ اس سے راہ گیروں کو معلوم ہو جاتا تھاکہ وہ تھوڑی سی احتیاط کریں، کیونکہ تانگہ آ رہا ہے۔ جناح کالونی میں ایک چھتری والی گراؤنڈ تھی جو درختوں اور پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ سرسبز گھاس ایک قالین کی طرح بچھی ہوئی تھی، اس کی روشیں سیمنٹ کی بنی ہوئی تھیں اور صاف رکھی جاتی تھیں۔ اگر کوئی بچہ راستہ بھول جاتا تھا تو سارا محلہ اس کی تلاش میں جت جاتا تھا۔ جسے بچہ ملتا، وہ محلے کی مسجد میں پہنچا جاتا تھا۔ جہاں سے اعلان کیا جاتا تھا کہ اس کے والدین بالکل پریشان نہ ہوں۔ بچہ بالکل محفوظ ہے۔ اسے مسجد سے آ کر لے جائیں۔ جناح کالونی سے سڑک، بل کھاتی ہوئی ڈویژنل پبلک اسکول تک کم رش کے ساتھ موجود تھی۔ بچے، سائیکل چلا کر بے فکری سے اسکول جایا کرتے تھے۔ والدین بالکل مطمئن رہتے تھے کہ ان کی اولاد، بالکل محفوظ ہے۔
مہمان آتے، تو کوئی لمبا چوڑا اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ دکھاوے کا تو خیر سوال ہی کوئی نہیں تھا۔ روز مرہ کے کھانے کے ساتھ، کوئی ایک سالن سادگی سے بنا دیا جاتا تھا۔ بہت اہتمام کرنا ہو، تو دو چار شامی کباب تل دیے جاتے تھے۔ مہمان اور میزبان، ایک دوسرے پر بوجھ بنے بغیر، سادگی سے کھانا کھاتے تھے اور ایک اپنایت کے احساس کے ساتھ واپس جاتے تھے۔ کوئی مبالغہ آرائی نہیں کر رہا۔ لائل پور کا چناب کلب، عمارت کی وسعت کے لحاظ سے مختصر تھا۔ مگر شرفاء کے لیے تفریح کے سارے لوازمات میسر تھے۔ کوئی ٹینس کھیل رہا ہے۔ تو کوئی کارڈ روم میں مصروف کار ہے۔
کوئی نماز ادا کر رہا ہے تو کوئی نیکر پہن کر ورزش میں مصروف ہے۔ حلق کو تر رکھنے کے سارے معمولات جاری و ساری رہتے تھے۔ باوردی ویٹرز، ادب سے خدمت بجا لاتے تھے اور معززین شرافت سے مشروب مغرب سے لطف اٹھاتے تھے۔ یہ سب کچھ عام اور معمول تھا، کوئی فتوے باز تھا نہ پولیس منہ سونگھنے کا اختیار رکھتی تھی۔ کوئی کسی کی نجی زندگی میں چھیڑ چھاڑ نہیں کرسکتا تھا۔ پندو نصائح تو خیر جاری رہتی تھی۔ مگر متوسط طبقہ بلکہ سفید پوش لوگوں کو بھی خوشی سے زندہ رہنے کا حق حاصل تھا۔
اب لاہور کی طرف آتا ہوں۔ والد اور والدہ کے ساتھ، اکثر لاہور آنا جانا رہتا تھا۔ والد صاحب کے ایک پرانے دوست، چوہدری رحمت علی، نسبت روڈ پر رہتے تھے۔ ہم بچے بھی گرمیوں کی چھٹیوں میں دو تین ہفتے کے لیے لائل پور سے وہاں آ جاتے تھے۔ خوب دھما چوکڑی ہوتی تھی۔ رحمت صاحب، ڈبیوں والا تہمند باندھتے تھے۔ دلچسپ انسان تھے۔ انگلی پکڑ کر مال روڈ پر موجود، فیروز سنز لے جایا کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی کتابیں خرید کر دیتے تھے۔
عمرو عیار، امیر حمزہ، عادی پہلوان اور لندھور جیسے لازوال کرداروں سے ہرگز روشناس نہ ہوتا اگر رحمت علی صاحب، مجھے فیروز سنز نہ لے کر جاتے۔ ان کے اس احسان کا بدلہ میں پوری زندگی نہیں دے سکتا۔ خدا انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ان کی بیٹی، فرحت پھپھو، بالکل والدہ کی طرح ہم بچوں کا خیال کرتی تھیں۔ وہ بھی چند برس پہلے انتقال کر گئیں۔ ان کے لیے بھی اسی طرح دعا کرتا ہوں جیسے اپنی والدہ کے لیے۔ کمال، شفیق خاتون تھیں۔ خیر یہ تو بالکل ہی بچپن کا ذکر کر بیٹھا۔ یعنی ساٹھ کی دہائی کا۔ مگر جب حسن ابدال پہنچا تو بارہ برس کا تھا۔ دنیا کو تھوڑا تھوڑا سمجھ رہا تھا۔ ایک دن، لاہور میں ایک شادی کی تقریب تھی۔ والد صاحب، ملتان میں تعینات تھے۔
یہ کوئی 1975کی بات ہے۔ والد کے ایک کزن، جو عمر میں میرے سے تھوڑے سے بڑے تھے۔ وہ بھی شادی میں آئے ہوئے تھے۔ ہم لوگ فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ شادی ختم ہوئی، تو والد صاحب کے کزن، بھائی حیدرنے مجھے کہا کہ آؤ تمہیں لاہور دکھاؤں۔ رکشہ لے کر ہم مال روڈ پہنچے۔ رات کے کوئی نو بجے تھے۔ پوری سڑک، روشنیوں سے دمک رہی تھی۔ خوش لباس مرد اور خواتین فٹ پاتھ پر خراماں خراماں چل رہے تھے۔ اس میں بہت سے گورے بھی تھے۔ گوری خواتین اسکرٹ پہن کر دکانوں کو دیکھ رہی تھیں۔ مال روڈ پر کیفے، بازار، ہوٹل کثرت سے موجود تھے۔ بھائی حیدر، مجھے انڈس ہوٹل لے گئے۔
اس کے ہال میں، ایک میوزک سسٹم لگا ہوا تھا۔ جس میں کالے رنگ کے ریکارڈ، بج رہے تھے۔ شہری اور سیاح سکون کے ساتھ اپنی مرضی کا مشروب انجوائے کررہے تھے، بدتمیزی تو دور کی بات، کوئی اونچی آواز میں بات تک نہیں کر رہا تھا۔ ہوٹل سے نکل کر ہم پیدل مال روڈ پر سیر کرنے لگے۔ آواری ہوٹل اس وقت کسی مختلف نام سے چل رہا تھا۔ اس کے باہر ایک بہت بڑا پوسٹر لگا ہوا تھا۔ جس میں درج تھا کہ یہاں دس دن تک شام کو ترکی سے آیا ہوا طائفہ رقص پیش کرے گا۔
ساتھ ہی کھانے کا اہتمام تھا۔ صرف بیس پچیس روپے میں۔ آپ، شام حددرجہ شریفانہ طور پر بسر کر سکتے تھے۔ بالکل اسی طرح، گلبرگ کا مین بلیوارڈ حد درجہ آراستہ جگہ تھی۔ مین بلیوارڈ گلبرک کی وسیع گرین بیلٹ اونچے اور گھنے درختوں سے اٹی پڑی تھی، ان دنوں یہاں کھجور کے درختوں کا کوئی وجود نہیں تھا، اونچے اور گھنے سایہ دار درخت ہوا کرتے تھے۔ مغل ہوٹل، مین مارکیٹ کے تقریباً سامنے ہوا کرتا تھا۔ وہ بھی ایک رونق میلے کی جگہ تھی۔
مگر پھر 1977 آ گیا۔ یک دم ہمیں احساس ہوا کہ ہم تو مسلمان ہیں اور ہم نے اپنے معاشرے کو بہتر کرنا ہے۔ پرانا لاہور اور اس کی ثقافت و روایات یکدم غائب ہو گئے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا کہ زندہ شہر کسی چھومنتر کی طرح ملک عدم میں غائب ہوگیا۔ 1978میں میڈیکل کالج میں آیا تو لاہور شہر تو موجود تھا۔ مگر وہ پرانی رعنایاں موجود نہیں تھیں۔ سیکنڈایئر میں ایک دن، کالج کے کلاس روم میں ساتھ والے طالب علم نے پوچھا کہ گرمیوں کی چھٹیاں کیسے گزارو گے۔ سوال ہی سمجھ نہیں آیا۔
سوچ کر کہا، کہ میں لائل پور چلا جاؤںگا، وہاں والدہ ہیں۔ اس پر وہ طالب علم بولا، میں نے ویسے ہی پوچھا ہے کہ آپ چھٹیوں میں کیا کرو گے۔ تھوڑا رک کر وہ پھر بولا کہ دراصل ہم چار طالب علم، افغانستان میں جاکر جہاد کریں گے، کافروں سے لڑیں گے اور انھیں جہنم رسید کریں گے۔ یہ سن کر میں تو پریشان ہوگیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مذاق کر رہا ہے لیکن وہ سچ بول رہا تھا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پانچ سے چھ طالب علم جہاد کرنے واقعی افغانستان پہنچ گئے۔ مجھے اس وقت احساس ہوگیا تھا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے کیونکہ میرے لیے یہ بالکل غیرمتوقع خبر تھی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے، آنکھوں کے سامنے پورا ملک بارود کی بو سے برباد ہوگیا۔
فرقہ پرستی، شدت پسندی اور بنیاد پرستی، ایک بلا کی طرح، ہمارے خوبصورت شہروں، تہذیب و ثقافت اور معاشرتی اقدار کو نگل گئی۔ پاکستان تہذیبی اور آزادیِ فکرکے اعتبار سے بانجھ ہوگیا اور ایک ایسا طبقہ وجود میں آیا جس نے مذہبی لبادہ اوڑھ کر ہر وہ کام کیا جس کی دین میں اجازت نہیں ہے۔ خواص اور عوام نے اس مسئلہ کا عجیب حل نکالا۔ تقریباً ہر شخص، دوہری یا تہری شخصیت کا حامل ہوگیا۔
ایک نیک اور پرہیز چہرہ، لوگوں کے لیے اور اس کے بالکل متضاد، ایک اور شخصیت جس کا دن کی روشنی میں ذکر تک نہیں کیا جا سکتا۔ ملک تو خیر اب، برباد ہو ہی گیا ہے۔ لہٰذا، گریہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں کوئی بھی حکومت، عام لوگوں کے مسائل حل کرنے میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں رکھتی۔ ہاں شور بہت ہے۔ اس لیے عرض کرتا ہوں، کہ آہ و زاری سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ آپ کا اصل دشمن کون ہے۔ اسے پہچانیے؟