کافی عرصے سے سوچ رہا تھا کہ اس عظیم ملک نے مجھے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ لہٰذا کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے لوگوں کی بھلائی ہو۔ غور کیا، تو سب سے زیادہ مالی امداد مساجد اور ان سے منسلک اداروں کو دی جا رہی ہے۔ لوگ، اپنے اعمال پر غور کیے بغیر، دینی مدارس کو اقتصادی مدد کرکے دھڑا دھڑ جنت کما رہے ہیں۔ بہرحال یہ تو رب ذوالجلال کا فیصلہ ہے کہ کس شخص کو بہشت میں رکھنا ہے اور کس کو دوزخ میں۔ بالکل اسی طرح ایک اور چیز بھی سامنے آئی کہ مختلف ادارے اور امیر لوگ لنگر خانے کھول کر لوگوں کو کھانے سے مستفید کر رہے ہیں۔
لاہور شہر میں درجنوں کے حساب سے ایسے لنگر خانے کامیابی سے کام کر رہے ہیں۔ مختلف مارکیٹوں اور بازاروں میں موجود ہیں۔ نام لیے بغیر عرض کروں گا کہ اس میں ملوث ادارے اور لوگ بلا شبہ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ مگر وہ زیادہ تر مخیر حضرات کی مہربانیوں کی بدولت موجود ہیں۔ بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی شخص اپنی ذاتی گرہ سے خرچ کرکے لوگوں کی خدمت میں مصروف ہو۔ بڑ ے بڑے فلاحی ادارے، صدقات اور خیرات پر اکتفا کرتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے بہت سے کام این جی اوز اور فلاحی ادارے دوسروں کے پیسے کو استعمال کرکے خم ٹھونک کر کیے جا رہے ہیں۔
اس کی ایک جھلک رمضان کے مبارک مہینے میں خصوصی طور پر نظر آتی ہے۔ لوگوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ زکوٰۃ فلا ں این جی اوز یا فلاں ادارے کو مہیا کریں۔ یہ بالکل عام سا رویہ ہے۔ مگر اس پر سوچنا ضروری ہے۔ دوسروں کے پیسے، خیرات یا زکوٰۃ استعمال کرکے لوگوں کی بھلائی کرنا مناسب ہے مگر اس میں مجھے عجیب سے رویے نظر آئے ہیں۔
فلاحی اداروں کے چند سربراہان، عام آدمی کے لیے مختص رقم کو بینکوں میں جمع کروا کر سود کے ذریعے شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں اور وہ ہر وقت ذاتی پبلسٹی اور اپنے آپ کو نیک نام ثابت کرنے کے لیے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ چند افراد مختلف سیاسی پارٹیوں کے آلہ کار بن کر، غریبوں کی خدمت کرنے کے دعوے فرماتے ہیں اور کچھ لوگ مکمل طور پر غیر سیاسی طریقے سے اسی انداز میں کام کر رہے ہیں۔ ان کی نیک نیتی اور اہلیت پر کسی قسم کا سوال نہیں کر رہا۔ مگر کچھ ایسی چیزیں ہیں جنھوں نے مجھے مختلف انداز میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
پاکستان میں عام آدمی کی ذاتی عزت نفس کا خیال کرنے والے افراد یا ادارے حد درجے کم نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سفید پوش طبقے کی عزت نفس کا نکتہ سرے سے ان کے کام میں ہی غائب ہے۔ لنگر خانوں کی طرف نظر دوڑائیے۔ یہ ایک احسن کام ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی سفید پوش آدمی، ان خیراتی یا صدقاتی کھانوں پر جانا پسند کرے گا۔ اس کا جواب مثبت اور منفی دونوں میں ہے۔
شاید کچھ سفید پوش لوگ، اپنی عزت نفس کی نفی کرتے ہوئے ان جگہوں پر جانے کا حوصلہ کر لیں۔ مگر بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جو سفید پوشی کے باوجود صدقاتی لنگر خانوں پر نظر نہیں آئیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں بھوک نہیں لگتی۔ مگر شاید خیراتی جگہوں پر جانے کے لیے ان کے پاؤں بوجھل ہو جاتے ہیں۔ چند ہفتے پہلے بذات خود اس چیز کا مشاہدہ کیا۔ لاہور کی ایک مارکیٹ کے لنگر خانے میں گیا تو وہاں کافی افراد کھانا کھا رہے تھے۔ لنگر خانے کے نزدیک ریڑھیوں کی کافی تعداد تھی اور ساتھ کئی کھوکھے بھی لگے ہوئے تھے۔
چند ریڑھی والوں اور کھوکھے کے دکانداروں سے پوچھا کہ آپ کھانا کہاں سے کھاتے ہیں۔ اکثریت سوال سن کر خاموش سی ہوگئی۔ اصرار کرنے پر بتایا کہ وہ لوگ اپنے گھروں سے کھانا بنوا کر لے کر آتے ہیں۔ ان سے یہ بھی پوچھا کہ آپ اپنی دکان کے نزدیک خیراتی جگہ سے مفت کھانا کیوں نہیں کھاتے۔ جواب تھا کہ وہ اپنے آپ کو محنت کش سمجھتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں۔ دو چار ہزار روپے کما ہی لیتے ہیں۔ ان کی عزت نفس اجازت نہیں دیتی کہ صدقے یا خیرات کے مفت لنگر خانے پر کھانا کھائیں۔ یہ جواب بالکل فطری تھا۔ جواب نے میرے ذہن میں سوچنے کے لیے بہت مواد مہیا کر دیا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ غریب آدمی کی کوئی عزت نفس نہیں ہے۔
شاید یہ کسی حد تک درست بھی ہو۔ مگر طالب علم کا گمان یہ ہے کہ ہر شخص کی طرح غریب سے غریب آدمی بھی اپنی عزت نفس برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اس ملک میں ان گنت لوگ ایسے بھی ہیں جو سفید پوشی کی بدولت مرتے مر جائیں گے مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔ میری تمام توجہ اسی طبقے پر مرکوز ہے اور اپنے کام کا آغاز اس مخصوص طبقے کو ذہن میں رکھ کر شروع کر رہا ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ غریب آدمی کو مدد کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ اس کے برعکس مقصد سماجی بہبود کا ایک ایسا نظام ترتیب دینا ہے جو اپنے پیروں پر کھڑا ہو اور اس میں کسی طرح کا کوئی خیراتی یا صدقاتی پہلو موجود نہ ہو۔
عملی تصویر سامنے رکھتا ہوں جو میں اس ہفتے سے شروع کر رہا ہوں۔ لاہور کے جس علاقے میں رہتا ہوں وہ آسودہ حال ہے۔ اس میں ہزاروں ایسے مزدور کام کر رہے ہیں جو کھانے کے وقت معمولی سے ہوٹل میں کھانا کھاتے ہیں۔ ڈیفنس لاہور کے نواحی علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ عام سے ڈھابوں سے کھانا کھاتے ہیں۔ اس میں کوئی بھی عجیب بات نہیں۔ چند دن پہلے ایک اسی طرح کے ڈھابے پر قصداً گیا، تو کھانے کی قیمت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ مرغ کی ایک پلیٹ ایک سو بیس روپے سے دو سو روپے تک، عام سی دال کی آدھی پلیٹ ستر سے سو روپے تک۔ روٹی کی قیمت بارہ روپے سے لے کر بیس روپے تک۔ حد درجے معمولی ہوٹل کی بات کر رہا ہوں، جہاں مزدور، ڈرائیور اور اسی سطح کے لوگ کھانا کھاتے ہیں۔
دوسری بات جو محسوس کی کہ برتن مکمل طور پر صاف نہیں تھے اور پورا ہوٹل گندگی سے اٹا ہوا تھا۔ تین چار بلیاں بھی گھات لگائے بیٹھی تھیں کہ کب کوئی ہڈی نیچے پھینکے اور وہ جھپٹ کر اسے اٹھا لیں۔ اسپاٹ چہرے والے درجنوں لوگ وہاں کھانا کھا رہے تھے۔ اسی جگہ پر میں نے بھی کھانا کھایا اور میرے ساتھ ایک دوست جن کی ٹیکسٹائل مل ہے وہ بھی شامل تناول تھے۔ عرض کرتا چلوں کہ کھانا حد درجہ بدذائقہ اور غیر معیاری تھا۔ اب آپ کو اعتماد میں لیتا ہوں کہ میں نے اس دن کیا فیصلہ کیا۔
خوردونوش کی مختلف اشیاء کی منڈیوں سے قیمت معلوم کی۔ نزدیکی گوشت فروشوں سے مرغی، مٹن اور بیف کی قیمت پوچھی۔ جب تمام معلومات میسر ہوگئیں تو لندن سے آئے ہوئے ایک حددرجے لائق اکاؤنٹنٹ کو گھر بلا کر کھانے کا تخمینہ لگوایا۔ معلوم پڑا کہ اگر کھانے کے اوپر کسی قسم کا منافع نہ لیا جائے تو اس کی قیمت ایک چوتھائی یا آدھی رہ جاتی ہے۔ یعنی ڈیڑھ سو کی پلیٹ چالیس سے پچاس روپے پر مہیا کی جا سکتی ہے۔ اسے کسی نقصان یا فائدے کے بغیر چلائیں تو آپ لوگوں کو ایک چوتھائی قیمت پر صاف ستھرا کھانا تین ٹائم اپنے ڈھابے سے مہیا کر سکتا ہے۔ چند دوستوں سے بات کی۔
ہر ایک نے کہا کہ وہ اس کار خیر میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ مگر میں نے مکمل طور پر انکار کر دیا۔ صرف ایک شرط رکھی کہ مجھے اپنا وقت دیجیے تاکہ اس معمولی سے ریسٹورنٹ یا ڈھابے کو بہترین طریقے سے چلایا جاسکے۔ یقین فرمائیے ان دوستوں، ان کی فیملیز اور ان کے بچوں کا جذبہ دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ امریکا اور برطانیہ سے پڑھے ہوئے بچے بچیوں نے کہا کہ وہ وہاں ہفتے میں تین چار گھنٹے ہر طرح کا کام کرنے کے لیے حاضر ہیں۔
برتن دھونے سے لے کر، صفائی کرنے تک مکمل طور پر تیار ہیں۔ میں نے بھی فیصلہ کیا ہوا ہے کہ اپنے بنائے ہوئے ڈھابے پر، کاروباری مصروفیت کے بعد صفائی بھی کروں گا اور برتن بھی دھوؤں گا۔ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ اس کام کے لیے مختص رکھوں گا۔ No profit and No loss کا ماڈل ڈھابہ تین چار دنوں میں کام شروع کر دے گا۔
اس ماڈل کو پورے لاہور کی متوسط طبقے کی بستیوں میں لے کر جاؤں گا۔ اگر خدا نے توفیق دی تو پورے ملک میں یہ ماڈل چلاؤں گا۔ مجھے کسی قسم کی کسی مالی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر چاہیے تو آپ کا وقت اور وہ بھی ایک ہفتے میں یا مہینے میں صرف اور صرف چند گھنٹے۔ یقین ہے کہ عزت نفس رکھنے والے لوگ بڑے آرام سے جم کر یہاں معیاری کھانا کھائیں گے اور کسی ندامت کے بغیر سینہ تان کر تناول فرما سکیں گے۔ یقین ہے کہ خدا اس کام میں میری بھرپور مدد فرمائے گا۔