ایسٹ انڈیا کمپنی، اپنے دور اقتدار میں برصغیر کو اقتصادی طور پر برباد کر رہی تھی۔ لندن کی سڑکوں کی روشنی انڈیا میں پیداہونے والی اجناس اور دولت کی بدولت ممکن تھی۔
1857ء کے بعد جب کمپنی بہادر ہندوستان کا خون چوس رہی تھی تواسے کئی جدت والے کام مجبوری میں کرنے پڑے۔ دریائے سندھ پر پل بنانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ پنجاب سے کپاس، اناج بآسانی بندرگاہوں تک لیجایا جاسکے اور پھر اسے مختلف منزلوں کی طرف بھرپور منافع کے ساتھ روانہ کر دیا جائے۔
1887ء میں دریائے سندھ پرپہلا ریلوے پل اٹک کے مقام پر بنایا گیا۔ اس سے تجارتی سامان کلکتہ تک لے جایا جاتا تھا۔ لیکن ایک مسئلہ بدستورموجود تھا۔ سکھر پرآ کر تمام ریلوے کی ویگنوں کو ایک دخانی بحری جہاز میں منتقل کیا جاتا تھا اور وہ اسے دریائے سندھ کو عبور کرنے میں مدد کرتا تھا۔ مگر یہ مہنگا ترین طریقہ تھا۔
گورے نے پورے برصغیر میں ٹرین کا جال تجارتی اور عسکری وجوہات کی بنا پر بچھایا۔ اس میں خلق خدا کی آسانیوں کا کوئی مقصد موجود نہیں تھا۔ سکھر پر پل بنانے کیلیے 1887ء میں WestWood، baillie and co کو گارڈر بنانے کا کام دیا گیا۔ ان ضخیم لوہے کے گارڈروں کو پل کی شکل دینے کا کام F-E-robertson and Hecquet کے حوالے کیا گیا۔ پل کی تکمیل میں چھبیس لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ ہوئی۔
یاد رہے کہ ڈیڑھ سو سال پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ مگر اب سب سے مشکل مرحلہ سامنے آیا۔ کوئی بھی انگریز ٹرین ڈرائیور پل پر ٹرین چلانے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ اس کی واحد وجہ یہ کہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ نیا پل ٹرین اور اس کے ساتھ ڈبوں کے وزن کو برداشت بھی کر پائے گا کہ نہیں۔ یعنی اس تجربے میں جان جانے کا خطرہ موجود تھا۔
اب یہاں سے یہ ساری تاریخی کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔ جمالو کھوسو بلوچ سکھر کا ایک عام سا شہری تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک افسر نے اسے سزائے موت کا حکم سنایا تھا۔ سکھر کے نزدیک ہی جمالو بلو چ پھانسی لگنے کاانتظار کر رہا تھا۔ جیل کا عملہ روز ایک قیدی کا باآواز بلند نام لیتا تھا پھر اسے سب کے سامنے تخت دار پر لٹکا دیا جاتا تھا۔
جمالو کو اپنی موت سامنے نظر آ رہی تھی اور وہ شدید ترین ذہنی اذیت کا شکار تھا۔ اسے لگتا تھا، کہ اگلے روز موت کا فرشتہ اس کانام پکارے گا اور وہ سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ زندگی اور موت کے درمیان یہ آنکھ مچولی کافی عرصے سے جاری تھی۔ جمالو کو بتایا گیا کہ فرنگیوں نے سکھر پر ایک نیا پل تعمیر کیا ہے جس پر ٹرین چلانے کے لیے کوئی بھی بندہ آمادہ نہیں ہے۔ اس کے ذہن میں ایک حیرت انگیز خیال آیا۔
جیل میں متعین انگریز افسر کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ نئے سکھر پل پر ٹرین چلانے کے لیے تیار ہے۔ بے شک اس تجربے میں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ مگر اس نے اس کام کے لیے ایک اچھوتی شرط رکھ ڈالی کہ اگر اس نے ٹرین کے انجن اور ڈبوں کو سکھر کا پل پار کروا دیا تو اس کی سزائے موت، کمپنی بہادر معاف کر دے گی۔ انگریز افسر نے جمالو کی یہ درخواست سینئر افسروں کو بھجوائی۔ کافی بحث مباحثے کے بعد اسے تسلیم کر لیا گیا۔
ستر فیصد سے زیادہ لوگوں کو یقین تھا کہ جمالو ٹرین کو پل سے عبور نہیں کروا سکتا اور پل ڈبوں کے بوجھ تلے دب جائے گا۔ جس سے یقینی طور پر اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ جمالو نے اپنی زندگی کا جوا انتہائی سمجھ داری سے کھیلا تھا۔ جیل میں پھانسی کی سزا پانے کے بعد موت تو اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اوردوسری صورت میں اگر وہ پل کو عبورکرواتے ہوئے حادثے کا شکار بھی ہو جاتا تو اسے زیادہ سے زیادہ موت ہی نظر آرہی تھی۔ مگر جمالو کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ ہو سکتاہے کہ وہ اس کام میں کامیاب ہو جائے اور اس طرح اس کی زندگی بچ جائے۔
1889ء میں یہ تجربہ کیا گیا۔ سکھر پل جس کا نام وائس رائے کے نام پرLansdowne Bridge رکھا گیا تھا۔ اب جمالو کے سامنے کھڑا تھا۔ بلکہ یہی اس کی زندگی اور موت کا فرق تھا۔ جمالو نے ٹرین کے انجن میں بیٹھ کر بڑے اطمینان سے اسے سٹارٹ کیا۔ اس کے پیچھے آٹھ خالی ڈبے تھے۔ جمالوکو ٹرین کے انجن کی حد درجہ معمولی سی تربیت بھی دی گئی تھی۔ انجن سٹارٹ ہوا تو سینکڑوں لوگ پل کے دونوں اطراف پر سانس روکے کھڑے تھے۔
ان کے ذہن میں صرف ایک خیال تھا کہ ٹرین پل کواپنے بوجھ سے ختم کر دے گی۔ جمالو آہستہ آہستہ انجن چلاتے ہوئے جب پل کے درمیان میں پہنچا تو وہی ہواجس کا خطرہ تھا۔ اچانک پل ساڑھے چار انچ نیچے کی طرف دب گیا۔ بلکہ ٹیڑھا ہوگیا۔ کنارے پر کھڑے ہوئے لوگ اب صرف اس چیز کا انتظار کر رہے تھے کہ ٹرین کس وقت دریائے سندھ کے اندر گرتی ہے۔ گورے انجینئر دم بخود اس سارے منظر کو خود دیکھ رہے تھے۔ لیکن خدا کی مرضی کچھ اور تھی۔ پل ساڑھے چار انچ نیچے کی طرف ضرور گیا مگر اس سے پٹڑی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
جمالو بلوچ بڑے سکون کے ساتھ پوری ٹرین کو پل کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے گیا اور فاتحانہ طریقے سے انجن سے باہر نکلا۔ یہ ایک بہت بڑا ذاتی کارنامہ تھا۔ وعدے کے مطابق کمپنی نے جمالو کی سزا معاف کر دی۔ جب جمالو اپنے گاؤں پہنچا تو پورا گاؤں اس کو ایک نظر دیکھنے کے لیے باہر نکل کر کھڑا ہوا۔
اس ہجوم میں جمالو کی اہلیہ بھی تھی۔ اپنے خاوند کو دیکھتے ہی اس خاتون کے لبوں سے تاریخی جملے نکلے۔ اور وہ تھے ہوجمالو۔ ہو ہو جمالو۔ یہ آفاقی گانا آج سندھ کی پہچان بن چکا ہے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے جمالو بلوچ کی اہلیہ کے الفاظ امر ہو چکے ہیں۔ جمالو سندھ کی تاریخ کا ایک ایسا کردار بن چکا ہے جس سے بہادری، جرأت جنم لیتی ہے۔ صرف ایک شخص کی ہمت نے دریائے سندھ پر بنے ہوئے مضبوط لوہے کے پل کو مسخر کیا۔