Wednesday, 04 December 2024
  1. Home/
  2. Rao Manzar Hayat/
  3. Ishq

Ishq

علامہ اقبال کیا تھے؟ وہ کس طرح اور کیوں کر وہ شاعری فرما گئے جس کا ثانی دنیا میں آج تک نہیں ملتا۔ جو خواب خرگوش میں مبتلا مسلمان امت کو جگانے کی آخری کوشش تھی۔ اس کے بعد نہ کوئی اقبال آیا اور نہ کوئی ایسا شخص ہی جو گہری نیند میں مبتلا مسلمانوں کے لیے صور اسرافیل بن سکے۔ صاحبان! لفظ تنگ پڑ جاتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اکیلے بیٹھ کے علامہ کی شاعری سننا یا پڑھنا ممکن نہیں رہا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک سیلاب نکلتا ہے جسے روکنا ناممکن بات ہے۔

میرے جیسے ادنیٰ طالب علم کے پاس اس کیفیت پر ایک سوال نہیں بلکہ سوالات کا ایک ہجوم ہے جو ذہن کو ہر طرف سے گھیرتے ہیں۔ عرض یہی کرنا ہے کہ قرآن اور اللہ کے رسولﷺ کی ذات سے وابستہ عشق حقیقی ہے۔ جس کے دھاروں سے اقبال کی شاعری نمو پاتی ہے۔ نا اس درویش سے پہلے کوئی ایسا فلسفی اور شاعر آیا اور نہ اس کے بعداس کی سطح کا کوئی داعی پیدا ہو سکا۔ مگر ہم لوگ عجیب روش کے لوگ ہیں کہ اپنے اس عظیم محسن کے پیغام کو جاننے، سمجھنے، سننے اور اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔ اپنے وجود کو اکٹھا کرنے کے بعد، بڑی ہمت سے کام لے کے"شکوہ" کے چند لازوال قطعے سامنے رکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم

ساز خاموش ہیں، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ، تو معذور ہیں ہم

اے خدا! شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
خو گر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے

تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
پھول تھا زیب چمن، پر نہ پریشاں تھی شمیم

شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم
بوئے گل پھیلتی کسی طرح جو ہوتی نہ نسیم؟

ہم کو جمعیتِ خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ امت ترے محبوبﷺ کی دیوانی تھی؟

ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر!

خوگر پیکر محسوس تھی انسان کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر؟

تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام ترا؟
قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا؟

بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تورانی بھی
اہل چیں چین میں، ایران میں ساسانی بھی

اسی معمور میں آباد تھے یونانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی تھے، نصرانی بھی

پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے؟
بات جو بگڑی ہوئی تھی، وہ بنائی کس نے؟

تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خشکیوں میں کبھی لڑتے، کبھی دریاؤں میں

دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ہم جو جیتے تھے، تو جنگوں کی مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے

قوم اپنی جو زرومال جہاں پر مرتی۔
بت فروشی کے عوض بن شکنی کیوں کرتی!

ٹل نہ سکتے تھے، اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے

تجھ سے سرکش ہوا کوئی، تو بگڑ جاتے تھے
تیخ کیا چیز ہے؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم ہے

تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خبیر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سرکس نے؟

توڑے مخلوق خدا ونوں کے پیکر کس نے؟
کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے؟

کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدہ ٔ ایراں کو؟
کس نے پھر زندہ کیا تذکرہ یزداں کو؟

کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی؟
اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی؟

کس کی شمشیر جہانگیر، جہانداد ہوئی؟
کسی کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی؟

کس کی ہیبت سے ضنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ھو اللہ احد کہتے تھے

آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفت جام پھرے

کوہ میں، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو کبھی نہ کام پھرے؟

دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نو ع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے

تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے

پھر بھی ہم سے گلا ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تو بھی تو دلدار نہیں

امتیں اور بھی ہیں، ان میں گناہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مست مئے پندار بھی ہیں

ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں ہشیار بھی ہیں
سیکڑوں ہیں کہ تیرے نام سے بیزار بھی ہیں

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر

بت صنم خانوں میں کہتے ہیں مسلمان گئے۔
ہے خوش ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے

منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے

خندہ زن کفر ہے، احساس تجھے ہے کہ نہیں؟
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟

یہ شکایت نہیں، ہیں ان کے خزانے معمور
نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور

قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بے چارے مسلماں کو فقط وعدہ حور

اب وہ الطاف نہیں ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سے مدارات نہیں؟

کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب
تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب

تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب
رہر ودشت ہو سیلی زؤہ موج سراب

طعن اغیار ہے، رسوئی ہے، نادار ہے
کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟

بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا۔
رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا!

ہم تو رخصت ہوئے اوروں سنے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا!

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے، جام رہے؟

تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے

دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلہ لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے

آئے عشاق، گئے وعدہ فرد الے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ زیبا لے کر

دور لیلیٰ بھی وہی، قیس کا پہلو بھی وہی
بخدکے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی

ق کا دل بھی وہی، حسن کا جادو بھی وہی
امت احمد مرسل بھی وہی، تو بھی وہی

پھر یہ آزرد گئی غیر، سبب کیا معنی؟
اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی؟

تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربیﷺ کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا؟ بت شکنی کو چھوڑا؟

عشق کو، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
رسم سلمانؓ و اویسؓ قرنی کو چھوڑا؟

آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بلالؓ حبشی رکھتے ہیں!

عشق کی خیر، وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی

صاحبان عزیز یہ شاعری نہیں بلکہ عشق کی وہ لافانی حقیقت ہے جو ہمیشہ جاوداں رہے گی۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran