ونسٹن چرچل تقریباً دو سال کے لگ بھگ ہندوستان رہا۔ 1895سے لے کر اگلے دو برس تک۔ دراصل چرچل برطانوی فوج کا حصہ تھا اور اس شمولیت کی بنا پر اس نے برصغیر کو بڑے غور سے پرکھا۔ مقامی لوگوں کو جانچنے کی کوشش کی۔ بینگلور، کلکتہ، حیدر آباد میں مقیم رہا۔
مگر اس کی زندگی کا مشکل ترین دورانیہ سابقہ این ڈبلیو ایف پی موجودہ کے پی میں گزرا۔ یہ محاذآرائی کا وہ حصہ تھا جس میں برطانوی فوج اور مقامی قبائلی لوگوں کے درمیان بھرپور جنگ ہو رہی تھی۔ قبائلی لوگ، آج سے تقریباً ڈیڑھ صدی پہلے جس بہادری سے لڑے، اس نے ونسٹن چرچل کے ذہن کو بہت متاثر کیا۔
جنگ جیتنے کے بعد ونسٹن چرچل نے ایک شہرہ آفاق کتاب لکھی جس کا نام جنگ مالاکنڈ تھا۔ یہ کتاب انگریزی سے اردو میں ملک اشفاق صاحب نے ترجمہ کی۔ یہ چند عرصہ پہلے جمہوری پبلی کیشنز نے شایع کی۔ سچ یہ ہے کہ یہ علاقہ دو صدیوں پہلے سے بھی یورش زدہ رہا ہے۔
مغلیہ دور میں بھی اس خطے میں قبائلیوں نے حد درجہ جرأت مندی سے مغل فوج کا مقابلہ کیا۔ اور یہی معاملہ پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں رہا۔ جنگ مالا کنڈ اپنے اعتبار سے حد درجہ نایاب نسخہ ہے جس کی بدولت، اس علاقے کے لوگوں کے مزاج، طوراطوار اور زندگی کے متعلق بہت قیمتی معلومات ملتی ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد بالکل سادہ سا ہے۔
پہاڑوں سے گھرا ہوا یہ خطہ کئی سو سال سے صرف اور صرف جنگ میں متبلا ہے۔ ان میں آپس کی قبائلی جنگیں اور باہر سے یلغار کرنے والی افواج سے لڑنا شامل ہیں۔ مگر ایک چیز ثابت ہے کہ اس علاقے میں کبھی بھی امن نہیں ہو پایا۔ یہ معاملہ آج بھی اتنا ہی بگڑا ہوا ہے جتنا عرصہ دراز پہلے۔ طالب علم، ونسٹن چرچل کی کتاب سے چند جملے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہے تاکہ اندازہ ہو کہ صرف اور صرف عسکریت سے اس علاقے کو دبانا ناممکن عنصر ہے۔
امن قائم کرنے کے لیے روایتی جنگ کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہن کو فتح کرنا ازحد ضروری ہے جس پر کوئی ٹھوس قدم کم ہی نظر میں آتا ہے۔ چرچل لکھتا ہے۔
"سرحدی قبائل جب آپس میں لڑتے ہیں تو معمولی بات پر ان کا جھگڑا شروع ہوتا ہے۔ وہ لڑائی میں مرنے والے اپنے ساتھیوں کی لاشوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے اور اپنے تہوار یا گھڑ دوڑ کے لیے بھی جنگ بندی نہیں کرتے۔ جنگ کے بعد وہ پرجوش ہوتے ہیں اور اپنے رشتوں کو دوبارہ استوار کرتے ہیں۔ ان کے کردار میں بہت زیادہ تضاد ہے۔ ان کا ایک اپنا ہی اخلاقی نظام ہے۔ وہ بدلہ لینے کے لیے ظلم و تشدد کرنے کو ایک خوبی سمجھتے ہیں۔ اپنی خاندانی دشمنیوں کو بھلانا برا سمجھتے ہیں۔ بدلہ لینے والے کی وہ عزت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی اپنی ہی منطق ہے۔ ایک بات میں آپ کو بتاؤں کہ ان لوگوں کے ذہن کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ خاص طور پر ایک گورے کے لیے تو بہت ہی مشکل ہے۔ یہ لوگ آپ کی عزت بھی کریں گے لیکن کوئی پتہ نہیں کہ وہ آپ کے کس وقت خلاف ہو جائیں۔ ان لوگوں کو سمجھے بغیر ان کے علاقے سے گزرنا ناممکن ہے۔ یہ لوگ جس کو پناہ دیتے ہیں، اس کی حفاظت بھی خوب کرتے ہیں۔ اور اس کی معمولی غلطی پر اسے قتل بھی کر سکتے ہیں۔ "
آگے چل کر چرچل جنگ کے متعلق رقم دراز ہے کہ "مالاکنڈ میں حملہ ہوا تھا اور ایک زبردست جنگ چھڑ گئی تھی۔ گولیوں کی باز گشت پہاڑوں میں گونجنے لگیں۔ ایک وادی میں اگر گولی کی آواز گونجتی تو یہ دوسری وادی تک پہنچ جاتی۔ اس طرح ایک وادی سے دوسری وادی تک جنگ کی خبر پہنچتی رہی۔ اس طرح پورے علاقے کو خبر ہوگئی کہ جنگ چھڑ گئی ہے۔
مغرب میں اس جنگ کے حوالے سے تبصرے ہونے لگے کہ یا تو مشرق میں انگریزوں کی حکومت کا زوال ہو جائے گا یا پھر انھیں بہت عروج حاصل ہو جائے گا۔
مغرب میں وہ خاندان بہت پریشان تھے جن کے پیارے اس جنگ میں حصہ لے رہے تھے۔ اس جنگ میں حصہ لینے والوں کے بہن، بھائی، مائیں اور بیویاں ان کے لیے دعا کر رہے تھے۔ لیکن جنگ تو ایسا دیو ہے جو کبھی کسی پر رحم نہیں کرتا اور ہزاروں لاکھوں زندگیوں کو نگل لیتا ہے۔ جنگ بہت طرح کی قربانیاں لیتی ہے اور اس پر بے انتہا پیسہ خرچ ہوتا ہے۔
چرچل کیونکہ اس جنگ میں خود شامل تھا اس لیے اس کے جملوں میں حقیقت پسندی کھل کر سامنے نظر آتی ہے۔ "صبح 11بجے سربنڈون نے لیفٹیننٹ کرنل آڈمز کی کمان میں پینتالیسویں سکھ رجمنٹ، چوبیسویں پنجاب انفنٹری، پانچ کمپنیاں سیپر ز اور مائنزز اور 4توپوں کے ساتھ آمندرہ درے کی جانب بھیجا۔ تین اسکوارڈن شمالی کیمپ کی جانب بھیجے۔ تب قبائلیوں نے مالا کنڈ کی تمام سرگرمیوں کے بارے میں جان لیا اور بڑی تعداد میں حملہ کرنے کے لیے اکٹھا ہونا شروع ہو گئے۔
یہاں کی زمین گھڑ سواری کے لیے موزوں نہیں ہے۔ جگہ جگہ نوکیلی چٹانیں ابھری ہوئی ہیں، میدانی علاقے میں بھی بے شمار ندی نالے ہیں اور انھوں نے زمین کو کاٹ دیاہے۔ اس اسکوارڈن نے قبائلیوں پر حملے کیے لیکن زمین کے خدوخال دشمن کی مدد کر رہے تھے اس لیے کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اسکوارڈن کے جوان ادھر ادھر بکھر گئے۔ لیفٹیننٹ کیز زخمی ہوا، اس کو ایک قبائلی نے تلوار سے حملہ کرکے زخمی کیا تھا۔
دراصل وہ حملہ آور سواتی تھا کیوں کہ سواتی لوگ اپنی تلواروں کو استرے کی مانند تیز دھار دیے رکھتے ہیں۔ قبائلیوں نے آگے بڑھ کر خود حملہ کر دیا، اسکواڈرن کو دوبارہ ان کے مقابلے پر جانا پڑا۔ اس حملے میں کپتان جی ایم بالڈون اور لیفٹیننٹ سی وی کیز زخمی ہوئے۔ 16جوان اور 26گھوڑے ہلاک ہوئے"۔
عنایت قلعہ کے باب میں درج ہے جب ہم "بلات" کے قریب پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ قبائلی قلعے کی دیواروں کے قریب چل رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر وہ اندر چلے گئے۔ لیکن بائیں جانب کی دیوار ٹوٹی ہوئی تھی۔ پورا گاؤں جلا ہوا تھا۔ انسانوں اور جانوروں کی لاشیں ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں۔
ایک جگہ گڑھا کھدا ہوا تھا، اس میں چھ سپاہیوں کی لاشیں دفن کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مہمندوں نے قبائلی روایت کے مطابق ان لوگوں کو دفن کرنے کی کوشش کی تھی۔ قریب ہی ایک جھونپڑی میں اٹھارہ سپاہی زخمی حالت میں پڑے تھے۔ وہ تکلیف سے نیم مردہ ہو چکے تھے۔ ایک افسر کا ہاتھ کٹا ہوا تھا اور دوسرے افسر کی دونوں ٹانگوں میں گولیاں لگی تھیں۔ وہ سب لوگ کسی کے منتظر تھے۔
"میں پہلے بھی ذکرکر چکا ہوں کہ سرکاری فوج کا سب سے زیادہ جانی نقصان افغان بارڈر کے دوسری جانب سے آنے والے افغانوں نے کیا تھا۔ لیکن میں اس سے بھی انکار نہیں کرتا کہ مہمند اپنے حوصلے، جنگی مہارت اور مقابلے کے لیے انتہائی جرأت رکھتے تھے۔ وہ غیر مہذب تھے لیکن انھوں نے مہذب انگریزوں کو اچھا سبق سکھایا تھا۔ انگریز جدید سائنسی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی سے لیس تھے۔ جب کہ قبائلیوں کے پاس اپنی جنگی روایات تھیں۔
میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ وہ بہادر اور جنگجو ہیں ان لوگوں کی جرأت انگریزوں کو مدتوں یاد رہے گی اور وہ انگریز خاندان تو ان لوگوں کو کبھی بھلا نہ پائیں گے، جن کے پیارے ان کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ قبائلی اپنے کھنڈر گھروں کو چند دنوں تک دوبارہ تعمیر کر لیں گے اور انگریزوں کو مار بھگانے کے واقعات نسلوں تک سنے اور سنائے جاتے رہیں گے۔ وہ بہت فخر سے کہیں گے کہ انھوں نے "سرکار راج" سے جنگ کی تھی۔
میں اب بھی ان واقعات کو یاد کرتا ہوں تو سب کچھ نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ میں یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ ہم صحیح تھے یا وہ درست۔
برصغیر کے شمالی علاقے جو افغانستان سے متصل ہیں، آج بھی صدیوں پہلے کی طرح شورش زدہ ہیں۔ جنگ، خون آرائی، شدت پسندی اور روایات کا ایسا خوفناک ملغوبہ ہے جس کو امن میں تبدیل کرنا حد درجہ عرق ریزی اور دانش مندی کا کام ہے۔ مگر اتنی جامع سنجیدگی دور دور تک نظر نہیں آتی۔