Thursday, 05 December 2024
  1. Home/
  2. Rao Manzar Hayat/
  3. Judge Caprio

Judge Caprio

فرانسسکو کیپریو(Francesco Caprio)، امریکا میں میونسپل کورٹ کے جج رہے ہیں۔ یہ عدالت Rhode island میں واقع ہے۔ کیپریو کا خاندان بنیادی طور سے اٹلی سے ہجرت کرکے امریکا آیا۔ 1936میں پیدا ہونے والے کیپریو کی عمر تقریباً 90سال ہے۔ یہ شخص 1985سے لے کر جنوری 2023 تک جج رہا۔ آج کل اپنی زندگی کے متعلق ایک کتاب لکھ رہا ہے۔ جج کیپریو ایک حیرت انگیز انسان ہے۔

اس کے بال بال میں، لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی، محبت اور عاجزی موجزن ہے۔ امریکا میں تمام عدالتی کارروائی ٹی وی پر براہ راست نشر کی جاتی ہے۔ امریکا کے مستحکم اور مضبوط ہونے میں اس کے نظام عدل کا اہم ترین ہاتھ ہے۔

جج کیپریو کی بات کر رہا تھا۔ ان کی عدالتی کارروائی ٹی وی پر اتنی مقبول ہوگئی کہ ٹی وی چینلز نے اسے مثال بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ کیپریو کے سامنے پیش ہونے والے مقدمات، یوٹیوب کے اندر محفوظ ہیں اور آج بھی آپ انھیں دیکھ سکتے ہیں۔ کئی مقامات تو ایسے آتے ہیں کہ کوئی بھی درد دل رکھنے والا شخص آنکھوں سے آنسوؤں کو ضبط نہیں کر سکتا۔

آپ کی خدمت میں دو واقعات ایسے پیش کرتا ہوں جو کہ شاید آپ کے لیے باعث حیرت ہوں۔ کیپریو کی عدالت میں ایک 90سال کا بوڑھا شخص پیش ہوا۔ الزام تھا کہ گاڑی مقررہ رفتار سے زیادہ چلا رہا تھا۔ جج نے اس بوڑھے شخص سے پوچھا کہ کیا درست ہے کہ آپ گاڑی تیز چلا رہے تھے۔ اس بزرگ نے حد درجے احترام سے کہا کہ یہ الزام بالکل درست ہے۔ میں بہت کم گاڑی چلاتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ بہت آہستہ چلاؤں۔

کیپریو نے حیرت سے پوچھا کہ پھر کیا وجہ تھی کہ آپ مقررہ رفتار سے زیادہ تیز گاڑی چلا رہے تھے۔ 90سالہ امریکی شخص نے کہا کہ میرا بیٹا تقریباً ساٹھ سال کا ہے اور کئی ذہنی امراض کا شکار ہے۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا میری مجبوری ہے۔ اپنے بیٹے کو اسپتال تک لے کر جا رہا تھا۔ اندازہ نہیں ہوا کہ گاڑی کی رفتار تیز تھی۔ کیونکہ میں ذہنی طور پر اپنے بچے کے لیے پریشان تھا۔

جج کیپریو نے واشگاف الفاظ میں پوچھا کہ کیا آپ کا بیٹا عدالت میں آیا ہوا ہے۔ جواب میں بوڑھے شخص کا بیٹا کھڑا ہوگیا اور ٹوٹے پھوٹے مریضانہ لہجے میں بتایا کہ والد اس دن اسے اسپتال لے کر جا رہے تھے اور وہ بالکل درست بات کر رہے ہیں۔

ذرا دل تھام کر سنئے کہ جج کا کیا رد عمل تھا۔ کہنے لگا کہ امریکا کو فخر ہے کہ آپ جیسے بلند کردار کے لوگ اس ملک میں موجود ہیں۔ وہ عظیم لوگ جو بوڑھے ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو نہیں بھولتے اور ان کے مسئلے حل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ جج کیپریو نے ڈیڑھ سو ڈالر کی سزا سنائی اور پیسے اپنی جیب سے ادا کیے۔ فیصلہ سن کر بوڑھے ڈرائیور کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور کیپریو نے بھی رونا شروع کر دیا۔

اگلا واقعہ ایک سیاہ فام خاتون کا بیان کرتا ہوں۔ وہ گاڑی تیز رفتاری سے چلا رہی تھیں۔ پولیس نے اس کا چالان کر دیا۔ سیاہ فام خاتون کے ساتھ اس کی چار پانچ سالہ بیٹی بھی گاڑی میں موجود تھی۔ جج کیپریو نے پوچھا کہ گاڑی لاپرواہی سے کیوں چلا رہی تھیں۔

خاتون نے جواب دیا کہ چند دن پہلے اس کے والد کا انتقال ہوا۔ اوروہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھی۔ جج کو یہ بھی بتایا کہ تیز رفتاری کے علاوہ اس نے ایک سپر مارکیٹ کے باہر غلط جگہ پر گاڑی پارک بھی کی تھی۔ کیپریو نے ملزمہ کے ساتھ آئی ہوئی ننی منی بچی کو کہا کہ ڈائس کے اوپر آ کر اس کی کرسی پر بیٹھ جائے۔

بچی کیپریو کی گود میں بیٹھ گئی۔ جج نے کہا کہ اب تم فیصلہ کرو کہ اپنی والدہ کو کتنا جرمانہ کرنا ہے۔ چھوٹی سی بچی کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ جج اسے فیصلہ کرنے کے لیے کہے گا۔ عدالت میں سب کو بتایا کہ اسے اپنے نانا سے بہت محبت تھی اور وہ چند دن پہلے فوت ہوئے ہیں۔

جج کیپریو نے ملزمہ کو کہاکہ اپنے والد کی کوئی تصویر دکھائے۔ ملزمہ نے اپنے سیل فون پر موجود ایک تصویر جج کو دکھائی۔ جس میں اس کی بیٹی، اسپتال میں اپنے نانا کے سینے پر محبت سے لیٹی ہوئی تھی اور اپنے ہاتھوں سے اس کے کندھے دبا رہی تھی۔

جج صاحب نے موبائل فون واپس کیا اور بچی کو کہا کہ وہ بتائے کہ کیا اس کی والدہ اتنی ذہنی دباؤ میں تھی کہ اس سے ٹریفک کے قانون کی پاسداری نہیں ہو سکی۔ بچی نے حد درجہ معصومانہ طرز سے یہ کہا کہ میری والدہ بالکل سچ بول رہی ہے۔ نانا کی وفات صرف ایک ہفتہ پہلے ہوئی ہے اور والدہ ان کی یاد میں ہر وقت روتی رہتی ہیں۔

بچی نے جج کی گود میں بیٹھ کر حکم دیا کہ اس کی ماں کو معاف کر دینا چاہیے۔ جج کیپریو نے ننی منی جان کو کہا وہ اپنا حکم اسپیکر پر سنائے اور اس کا کہا ہوا ہر لفظ جج کیپریو کے احکامات تصور ہوں گے۔ بچی نے اپنی والدہ کو معاف کر دیا اور یہی فیصلہ جج کیپریو نے بچی کے الفاظ میں درج کروا دیا۔

اس کے علاوہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جس میں کیپریو نے انسان دوستی اور سائلوں سے بھرپور محبت کا مظاہرہ کیا۔ وہ دہائیوں تک لوگوں میں انصاف اور انسان دوستی کے جذبات تقسیم کرتا رہا۔ صرف چند ماہ پہلے ریٹائر ہوگیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کیپریو کو معلوم ہوا کہ اسے پتے کا کینسر ہے۔ اس وقت اس کی عمر 87برس تھی۔ حد درجہ ہمت اور جرأت سے کینسر سے لڑا۔ اور صحت یاب ہوگیا۔

بیمار ہونے کی خبر جب امریکا میں پھیلی تو لاکھوں لوگوں نے عبادت گاہوں میں جا کر اس کی صحت یابی کی دعا کی۔ شاید یہ کیپریو کی انسان دوستی تھی کہ خدا نے لوگوں کی دعائیں قبول کیں اور وہ صحت یاب ہوگیا۔ کیپریو کسی جگہ بھی چلا جائے تو لوگ اس کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں اور اس سے ہاتھ ملانا اور بات کرنا اپنے لیے اعزازسمجھتے ہیں۔

ان واقعات کے برعکس جب میں اپنے ملک میں انتظامی سربراہان، ریاستی اہم لوگوں اور عدلیہ کے ارکان کو دیکھتا ہوں تو یقین فرمائیے بدن میں ایک خوف کی لہر عود کر آتی ہے۔ اور صرف یہی دعا نکلتی ہے کہ خدا ان افسروں، سرکاری عمال اور عدالتوں سے محفوظ رکھے۔ میری دعا کسی حد تک قبول ہو چکی ہے لیکن عام آدمی کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید مشکل میں جا چکے ہیں۔

آپ ہمارے کسی اہم یا اہم ترین شخص کے چہرے کو دیکھیے۔ اس پر غصہ، غضب، دوسروں کے لیے حقارت، طنز اور بداخلاقی کا ملغوبہ ایسے چڑھا ہوا ہوگا کہ دیکھنے والے کو صرف گھن آتی ہے۔ کمال بات یہ ہے کہ منصبوں پر فائز اعلیٰ ترین لوگ اپنی بد اخلاقی کو، اپنی مضبوطی گردانتے ہیں۔ ہاں ایک اور بات، نرم خو سرکاری بابو کو کمزور تصور کیا جاتا ہے۔ بیوورکریسی میں چونتس سال گزارنے کے بعد حد درجے ذمے داری سے عرض کر سکتا ہوں کہ جو بھی سرکاری افسر عوام سے جتنی زیادہ بدتمیزی اور بداخلاقی کرتا ہے۔

اسے اس کے سینئر اتنا ہی پسند کرتے ہیں۔ میرے سے دس بارہ سال سینئر ایک اہم بابو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ جونئر افسروں سے بھی حد درجہ بدتمیزی کرتے تھے۔ فائلیں اٹھا اٹھا کر زمین پر مارتے تھے۔ غلیظ گالیاں بکتے تھے۔ مگر اس بداخلاقی اور بدتمیزی کے باوجود وہ حکومت کی آنکھوں کا تارا تھے اور آج بھی ہیں۔ موصوف آج بھی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ اور موجودہ حکومت کے اندر بھی اہم ترین عہدے پر فائز ہیں۔

ہمارے ہاں عدالتی کارروائیوں کے دوران درشتی، جذباتیت اور سختی ججز کے ایک ایک جملے سے ٹپکتی ہے۔ توہین عدالت کے قانون کو ایک ہتھیار کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ جس سے سائلوں کو کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح کا عوام دشمن رویہ ہر سطح پر بلکہ ہر دفتر میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ اور یہ کم ہونے کے بجائے مزید تلخی کی طرف جا رہا ہے۔

اس سے آگے کیا عرض کروں ہمارا پورا نظام انسان دوستی کے عنصر سے عاری ہو چکا ہے۔ خواص کی بات چھوڑیئے۔ عوام کے اندر بھی غم و غصہ اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ لڑائی جھگڑا، گتھم گتھا ہونا اور گالی گلوچ اب عمومی رویہ بن چکا ہے۔ پاکستانی ریاست کو امریکی حکومت سے درخواست کرنی چاہیے کہ ہمیں امداد کے طور پر جج کیپریو جیسے چند اصولی اور انسان دوست حکمران بھجوا دے۔ شاید وہ اس سسکتی ہوئی قوم کے زخموں پر مرہم لگا سکیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran