Saturday, 12 April 2025
    1. Home/
    2. Rao Manzar Hayat/
    3. Khush Ikhlaqi Bari Sifat Hai

    Khush Ikhlaqi Bari Sifat Hai

    رابرٹ ولسن کی عمر پچھتر برس کی تھی۔ اہلیہ کا انتقال تقریباً آٹھ برس پہلے ہو چکا تھا۔ ایک بیٹا تھا، جو نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں کام کرتا تھا اور بہت کامیاب تھا۔ ولسن باقاعدگی سے سیر کرتا تھا اور کھانے پینے میں کافی احتیاط کرتا تھا۔ لہٰذا اچھی صحت کا مالک تھا۔ مگر بڑھاپا کسی طور پر چھپایا نہیں جا سکتا۔

    ولسن کے کندھے تھوڑے سے جھکے ہوئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سوٹ بھی پرانے ہی پہنتا تھا۔ پوری عمر شکاگو میں نوکری کرکے اب وہ اسی شہر کا مستقل باسی بن چکا تھا۔ ولسن کے پاس ایک بیس برس پرانی گاڑی تھی۔ ایک دن، فیصلہ کیا کہ اسے بہتر اور زیادہ آرام دہ گاڑی خریدنی چاہیے۔ بینک اکاؤنٹ چیک کیا تو اس میں کافی پیسے موجود تھے۔ ایک دن رابرٹ نئی گاڑی دیکھنے اور خریدنے کے لیے شکاگو کے سب سے بڑے شو روم پر گیا۔

    وہ جگہ قیمتی کاریں بیچنے کے لیے جانی جاتی تھی۔ رابرٹ نے پرانا سا سوٹ پہن رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک قدیم سا بریف کیس تھا۔ جوتے بھی نئے نہیں تھے۔ شو روم میں داخل ہوتے ہی ایک نوجوان سیلزمین اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس جوان لڑکے نے دیدہ زیب کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ جوتے بھی چمک رہے تھے۔ مقابلے میں رابرٹ ایک غریب آدمی نظر آ رہا تھا۔ ولسن نے بڑی تہذیب سے اس سیلزمین سے پوچھا کہ اسے مرسڈیز گاڑی خریدنی ہے اور وہ بھی ایس کلاس کی۔ شوروم کے اس ملازم کا نام جان میتھیو تھا۔ اس نے سوالیہ طریقے سے رابرٹ کی طرف دیکھا۔ میتھیو کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک غریب نظر آنے والا بوڑھا سا آدمی، مرسڈیز جیسی قیمتی گاڑی کیونکر خرید سکتا ہے۔

    یقیناً وہ صرف قیمت معلوم کرکے، وقت ضایع کرنے آیا ہے۔ جان نے سنجیدگی سے ولسن کو کہا کہ کیا آپ کے پاس دو لاکھ ڈالر ہیں کہ اتنی بیش قیمت گاڑی خرید سکیں۔ سوال وجواب ہو ہی رہے تھے کہ شوروم کا سپروائزر بھی وہیں آ گیا۔ ایک معمولی وضع قطع کے خریدار کو دیکھ کر، رعونت سے پوچھنے لگا کہ فرمایئے آپ کی کیا خدمت کریں۔ میتھیو نے بتایا کہ یہ مرسڈیز خریدنے کی بات کر رہے ہیں۔ سپروائزر نے غیرسنجیدگی سے کہا کہ جناب کیا آپ کے پاس اتنے پیسے ہیں کہ مرسڈیز جیسی مہنگی گاڑی خرید سکیں۔ رابرٹ کے لیے شو روم کے عملے کا یہ رویہ حددرجہ توہین آمیز تھا۔ وہ تو ایک گاہک تھا اور یہ اس کا استحقاق تھا کہ اپنی مرضی سے کوئی بھی کار خرید لے۔

    شو روم والے اپنے رویے سے مسلسل اس کی بے عزتی کر رہے تھے۔ بہرحال رابرٹ خاموشی سے واپس آ گیا مگر وہ پوری رات بے چین رہا۔ اس کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی تھی اور نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ صبح ہوتے ہی اس نے اپنے بیٹے کو فون کیا اور اسے سارا واقعہ سنایا۔ بیٹے کو باپ کی سبکی سے بڑی تکلیف ہوئی۔ مگر اس نے کچھ بھی کہنے سے پہلے والد سے ایک دن کی مہلت مانگ لی۔ شو روم کی کمپنی کا نام اور دیگر کوائف اپنے والد سے لے لیے۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ شو روم اور کمپنی خسارہ میں جا رہی ہے۔ بلکہ وہ تو اپنی کمپنی کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی بندہ اسے خریدنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

    بیٹے نے اپنے والد کو ساری صورت حال بتائی تو رابرٹ کے ذہن میں یکدم ایک خیال آیا۔ پچیس برس پہلے میں نے پچاس ہزار ڈالر نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں لگائے تھے۔ ان کی موجودہ مالیت کتنی ہے؟ بیٹے نے اکاؤنٹ دیکھ کر بتایا کہ اڑھائی دہائیوں میں وہ پانچ ملین ڈالر کے برابر ہو چکے ہیں۔ رابرٹ نے بیٹے سے پوچھا کہ کاروں کا شو روم کتنے میں اپنی مکمل کمپنی فروخت کر رہا ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بھی تقریباً اتنے ہی پیسے مانگ رہا ہے۔ رابرٹ نے بیٹے کو فوراً کہا کہ آپ ایک دن میں قانونی کارورائی مکمل کرکے یہ شو روم اور کمپنی فوری طور پر خرید لو۔ باپ کے حکم پر بیٹے نے فوری طور پر قانونی کارروائی مکمل کرکے کمپنی رابرٹ ولسن کے نام کروا دی۔ یہ سب کام دو دنوں میں مکمل ہوگیا مگر شو روم میں کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ کمپنی نئے ہاتھوں میں جا چکی ہے۔

    بہرحال، رابرٹ، اپنے وہی پرانے کپڑے پہن کر اگلے دن شو روم میں گیا۔ وہی جان میتھیو اور سپروائزر اسے دیکھ کر غصے میں آ گئے۔ فرمایئے، آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں۔ مرسڈیز خریدنے کے لیے تو شاید آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ رابرٹ نے کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف یہ کہا کہ وہ اب کمپنی کا مالک ہے اور اپنے کمرے میں بیٹھنے کے لیے جا رہا ہے۔ یہ جملہ سن کر ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ بوڑھا رابرٹ بڑی متانت سے اپنے کمرے میں گیا اور تمام اسٹاف کو بلوایا۔ میتھیو اور سپروائزر کو کہنے لگا کہ آپ دونوں کو گاہک سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔

    شائستگی سے بات کرنا آپ کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ دونوں معافیاں مانگنے لگ گئے کہ آیندہ غلطی نہیں ہوگی۔ مگر رابرٹ اپنا ذہن بنا چکا تھا۔ اس نے دونوں کو نوکری سے فارغ کر دیا۔ بقیہ اسٹاف کو صرف ایک حکم دیا کہ شو روم میں جو بھی انسان، جس حلیہ میں بھی آئے، اسے عزت اور احترام سے گاڑیاں دکھانی ہیں۔ اب ہوا یہ کہ جو بھی گاہک، شو روم میں آتا تھا، اس کی اتنی آؤبھگت کی جاتی تھی کہ وہ حیران رہ جاتا تھا۔ اکثر لوگ گاڑی وہیں سے خرید کر باہر نکلتے تھے۔ کمپنی کی شہرت پورے شکاگو میں بہت جلد پھیل گئی۔

    ایک سال کی قلیل مدت میں، رابرٹ کی کمپنی اور شو روم پورے شہر کی بہترین جگہ قرار دی گئی۔ شو روم کا منافع، آسمان کو چھونے لگا۔ رابرٹ مرتے دم تک اس شو روم کو حددرجہ کامیابی سے چلاتا رہا اور شکاگو میں ان سے زیادہ کاروں کے کاروبار میں کسی نے نہیں کمایا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں، اینکرنے ان کے کاروبار میں کامیابی کا راز پوچھا تو اس کا جواب صرف ایک جملہ کا تھا، لوگوں کا احترام اور عزت کرنا، سب سے اہم چیز ہے۔

    مجھے جب یہ اطمینان ہوگیا کہ یہ پورا واقعہ مکمل طور پر درست ہے تو آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کی۔ مگر اس پر غور کرنے سے ذہن میں کئی نئے معاملات سامنے آنے لگے۔ متعدد سوالات اٹھ گئے۔ رابرٹ نے جو سبق سکھایا۔ وہ بار بار ذہن میں اپنے اردگرد کے معروضی حالات دیکھ کر سانپ کی طرح پھن پھیلانے لگا۔ جب اپنے ملک کی اکثریت کو دیکھتا ہوں تو وہ حددرجہ غصیلے اور دوسرے کو تکلیف دینے کے مزاج کے حامل معلوم پڑتے ہیں۔

    حکومت میں موجود سیاست دانوں سے لے کر نوکرشاہی کے افسران تک، ہر مقام پر بڑا یا چھوٹا فرعون بیٹھا نظر آتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ کسی دفتر میں چلے جایئے، سب سے پہلے یہ معلوم ہوگا کہ آپ کی کوئی ذاتی عزت نفس نہیں ہے۔ اس قدر عامیانہ سلوک ہوگا کہ آپ اپنا جائز کام کروانے کے بجائے، واپس جانے کو ترجیح دیں گے۔ دراصل، ہمارا پورا ملک منفی سماجی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی رویوں پر چل رہا ہے۔

    ہر شخص دوسرے کو ذلیل کرنے کا جواز ڈھونڈ رہا ہے۔ ہمارے حکمران طبقہ کی رعونت تو دیدنی ہے۔ وہ تو پچاس سے سو گاڑیوں کے حصار کے بغیر چلنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر مصنوعی سی مسکراہٹ اور جعلی خوشگوار موڈ کو دکھا کر لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے۔ ذرا سوچیے! کیا کوئی بھی پاکستانی اپنے جائز کام کروانے کے لیے کسی بھی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم سے ملنے کا تصور تک کر سکتا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ اپنے حقوق کے لیے حکمران طبقے کے کسی اہم یا غیراہم شخص سے مل پائیں۔ میں آج کی بات نہیں کر رہا۔ تہتر برس کی کہانی صرف یہ ہے کہ ایک جعلی طرز کا حکمران طبقہ ہے جو عام لوگوں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں سمجھتا۔ لوگوں کے حقوق اور جائز خواہشات کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔

    خوش اخلاقی کا رویہ تو بڑی دور کی بات، یہاں تو اپنی عزت بچا کر زندگی گزارنا تقریباً ناممکن کام ہے۔ لوگ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے ملک سے ہجرت کر رہے ہیں۔

    سمندر کی لہروں میں مرنے کو، ملک خداداد میں زندہ رہنے پر ترجیح دے رہے ہیں۔ مگر حکمران طبقہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ ان کا شاہانہ پن کم ہونے کے بجائے تکلیف دہ حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ اس رویہ کو صحیح کرنا، مشکل نہیں بلکہ مکمل طور پر ناممکن ہے اور ہاں، کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں، اس دین کے پیروکار ہیں جس میں حسن اخلاق، ہر عبادت پر فوقیت رکھتا ہے مگر عملی طور پر ہر چیز الٹ ہے۔ پتہ نہیں اگر رابرٹ ولسن امریکا کے بجائے پاکستان کا شہری ہوتا تو اس کا کیا بنتا۔ شاید وہ یہاں زندہ رہنے کے بجائے خودکشی کرنا بہتر سمجھتا؟

    Check Also

    Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

    By Qasim Imran