بیوہ عورتوں کو، خاوند کی لاش کے ساتھ زندہ جلانے کی قبیح رسم برصغیر میں عرصہ قدیم سے موجود تھی۔ ویدک دور میں ستی بالکل عام تھی۔ برصغیر کی تاریخ کھل کر بتاتی ہے کہ چندر گپت موریا کے زمانے سے پہلے بھی یہ رسم جاری تھی۔ ashis landy کے مطابق ستی اٹھارویں صدی میں بنگال میں سب سے زیادہ مضبوط ہوئی۔ پرتگالیوں نے جب گوا پر قبضہ کیا تو انھیں علم ہوا کہ مقامی برہمن، بیوہ عورتوں کو جلانا مذہبی فرض سمجھتے تھے۔
Afonso Albuquerque نے ستی کی رسم پر پابندی لگادی۔ 1680ء میں انگریزوں نے بھی اپنے زیر تسلط علاقوں میں بھی اس بھیانک رسم کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ Sdreynshan Master نے ایک ہندو عورت کو اپنے خاوند کے ساتھ ستی ہونے سے بچایا۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ غیر ملکی حکمران اس ظالم رسم کو کافی حد تک ختم کرنے میں کامیاب رہے۔ میرا مقصد آپ لوگوں کے سامنے اس ظلم کو اجاگر کرنا تو ہے ہی مگر ساتھ ساتھ یہ بتانا بھی چاہتا ہوں بیوہ خواتین کو کسی بھی صورت میں منحوس یا غیر محفوظ تسلیم نہ کیا جائے۔ اسے لڑکی کی نحوست سمجھنا ہر صورت میں قابل مذمت ہے۔
عورتوں کے حقوق کے بارے میں اپنی تحریروں میں بار ہا لکھ چکا ہوں کہ مردوں اور خواتین کے حقوق برابر ہیں۔ انھیں ترقی کرنے اور اپنا مستقبل سنوارنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ ان خیالات کو کوئی لگی لپٹی بغیر، پرزور الفاظ میں ہمیشہ سب کے سامنے پیش کرتا رہا ہوں۔ فکری طور پر میں عورت کو صرف خانہ داری تک مقید محدود رکھنے کے خلاف ہوں۔ عورت مرد کے شانہ بشانہ زندگی کی دوڑ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی استطاعت رکھتی ہے اور اسے موقع نہ دینا ایک سماجی ظلم ہے۔
تحریر کا مقصد حقوق نسواں نہیں ہے بلکہ بیوہ خواتین کے مسائل کے متعلق ہے، یعنی وہ عورتیں جو ہمارے معاشرے میں مکمل طور پر غیر محفوظ ہیں۔ عرض کرنے دیجیے، کہ ہمارے سماج میں ہندو مذہب کی چھاپ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ بیوہ ہونا عورت کی بدنصیبی تصور کی جاتی ہے۔ بہت پڑھے لکھے مسلمان خاندان بھی بیوہ عورت کو وہ مقام دینے کے لیے تیار نہیں جو ہمارے عظیم انقلابی دین کے حوالے سے لازم ہے۔
ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ میرے ایک دور پار کے رشتے دار نوجوانی میں فوت ہو گئے۔ ان کی اہلیہ کی عمر اس وقت پچیس چھبیس سال سے زیادہ نہیں تھی۔ شوہر کی وفات کے چند سال بعد میں نے اس خاندان کے بزرگوں کو یہ عر ض کی کہ اس نوجوان بچی کی دوبارہ شادی ہونی چاہیے۔ اس کے تین بچے بہتر اور اچھی تربیت کے حقدار ہیں۔
کیا آپ اندازہ فرما سکتے ہیں کہ میرے اس اخلاقی مشورے کا کیا جواب ملا۔ ان بزرگوں نے مجھ سے بات چیت کرنی چھوڑ دی اور حکم دیا کہ آیندہ کے بعد میری زبان سے ایسے الفاظ نہیں نکلنے چاہئیں۔ کیونکہ یہ ان کی عزت کا معاملہ ہے۔ غور فرمائیے کہ ایک نوجوان بچی کو زندہ درگور کرنا، ان کے لیے جائز ہے کیونکہ وہ اسے اپنی خاندانی عزت سے جوڑ چکے تھے۔ یہ ہندوانہ طرزعمل، ستی کی ایک نئی شکل ہے جس پر بات کرنے کے لیے ہمارے مسلم معاشرے میں کوئی تیار نہیں۔ اس واقعہ کے بعد مجھے پہلی بار یہ اندازہ ہواکہ ہم اپنے مذہب کی انقلابی روح سے مکمل طور پر ہٹ کر زندگی گزار رہے ہیں۔
کوئی اخبار اٹھا کر دیکھیے۔ صرف ٹریفک حادثات میں روزانہ درجنوں افراد کی موت کی خبریں پڑھنے کو ملیں گی۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ مرد کی ناگہانی موت سے، ایک خاندان اپنے سربراہ سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر ایک سال میں گنتی کریں تو، لاکھوں خواتین، صرف ٹریفک حادثات میں شوہر کے ہلاک ہونے سے مکمل طور پر اکیلی رہ جاتی ہیں۔ ان کے بچے یتیم ہوتے ہیں اور انھیں ترس کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے کہ کیا ہمارے منافق معاشرے میں یتیم بچے اور بچیوں کو بوجھ نہیں سمجھا جاتا۔ کیا خاوند کے بغیر، عورت کی وہی قدرومنزلت رہتی ہے جو اس کے مرنے سے پہلے تھی۔ جواب آپ تمام لوگ بخوبی جانتے ہیں۔
قطعاً بتانے کی ضرورت نہیں کہ مرد، گھر کی چھت کی مانند ہوتا ہے۔ چھت گرنے سے موسم کی ہر شدت مکینوں پر آفت کی طرح نازل ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ بات لکھنی چاہے یا نہیں لکھنی چاہیے، کہ بیوہ خواتین کو، غیر مردوں کی غلیظ نگاہوں کا ہر دم سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اس ظلم کا کسی سے ذکر تک نہیں کر سکتیں۔ میرے پاس کوئی ایسا ڈیٹا نہیں ہے جس سے میں پورے ملک میں بیوہ خواتین کی تعداد آپ کے سامنے رکھ سکوں۔ شاید ان کے پاس یہ بھی حق نہیں ہے کہ انھیں شمار ہی کر لیا جائے۔ سرکاری اعداد وشمار تو صرف ایک سطحی سا نمبر ہوتے ہیں۔
ان پر تکیہ کرنا مناسب نہیں۔ دوبارہ معاشرے میں صدا بلند کرکے عرض کرتا ہوں کہ کوئی محقق مجھے ان بدنصیب خواتین کی تعداد ہی بتا دے۔ بات کو آگے بڑھانے سے ایک نقطہ مزید سامنے لاتا ہوں کہ کیا حکومت یا نجی ادارے ان بے سہارا خواتین کو کسی بھی طریقے سے معاشی اور سماجی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی ترغیب دیتے ہیں؟ طالب علم کا جواب مکمل نفی ہے۔ دور دور تک کوئی ایسا ٹھوس پروگرام یا ادارہ نظر نہیں آتا جو ان لاچار خواتین کو دوبارہ معاشرے کا بہتر فرد بنا سکے۔
حل کیا ہے؟ کہنے کو تو ہم اسلامی معاشرہ ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے عملی زندگی میں اسلام دور دور تک نظر نہیں آتا۔ لفاظی کی حد تک ہر چیز ٹھیک ہے۔ ظاہری عبادات بھی موجود ہیں۔ مگر ہمارے عظیم مذہب کی عملیت پسندی پر غور کرنا شاید ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ کیا بیوہ خواتین کو واقعی ہی بوجھ سمجھنا چاہیے۔ کیا انھیں گھر کے کسی کونے کھدرے میں پرانے فرنیچر کی طرح مقید کرکے ان کی زندگی پر احسان کیا جاتا ہے؟ کیا انھیں یہ حق نہیں کہ وہ زندگی کی ہر مسرت حاصل کر سکیں؟ شاید آپ کو یہ بات سچ نا لگے کہ سماجی طور پر ہمارا ملک آج بھی ہندوانہ رسومات کا شکار ہے۔
اسے کوئی شخص ماننے کو تیار نہیں۔ ہماری شادی بیاہ کی رسومات کو دیکھیں۔ تیل اور مہندی کی تقاریب، ان پر بے پناہ اخراجات اور شان و شوکت کا مظاہرہ ہندو سماج کی شناخت ہے۔ شادی بیاہ کو سادگی سے نہ کرنا اور تقاضا کرکے زیادہ سے زیادہ جہیز حاصل کرنا، اسلامی روایات کے برعکس ہے۔ معاشرے میں اپنی عزت بڑھانے کے لیے بے سروپا اخراجات اب شادیوں کا ایک لازمی عنصر بن چکا ہے۔ ہمیں تو سادگی کا حکم ہے۔ آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جس سادگی سے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ کی شادی فرمائی تھی، وہ آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ انھوں نے ذاتی سادگی کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جو رہتی دنیا تک جگمگاتی رہیں گی۔ مگر قیامت یہ ہے کہ ہم برصغیر کی حد تک، اس خطے کی مکروہ رسومات سے آج تک فرار حاصل نہیں کر سکے۔
حل کی بات کر رہا تھا تو صاحب غور سے سنیں۔ بیوہ خواتین کے ساتھ نکاح کو مقبول کیجیے۔ وطیرہ اپنائیں کہ بیوہ خواتین اپنی مرضی سے شادی کر سکیں۔ یہاں عجیب مسئلہ ہے کہ ہندو رسومات کے تحت مردوں کو ایک نکاح تک محدود کر دیا گیا ہے۔ قطعاً یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر مرد کو دوسری شادی کرنی چاہیے۔ مگر کیا یہ درست نہیں کہ کسی بیوہ کو بیاہ کر اس کی مشکلات ختم کرنا ایک خوبصورت سماجی روایت بن سکتی ہے۔
ذاتیات کی بات نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن متوازن اور مناسب رویہ ہی انسانی معاشروں کو فروغ دینے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ سنجیدہ بات کر رہا ہوں۔ کسی عورت کا حق مارنے کی بات نہیں کر رہا۔ مگر معاشرے میں ایک توازن قائم کرنے کے لیے بیوہ اور لاچار خواتین سے شادی کرنا کسی صورت میں بھی کوئی عیب نہیں۔ میں عالم دین نہیں ہوں، اس لیے دین کے احکامات پر عرض نہیں کرنا چاہتا۔ مگر سماج کے بگاڑ کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہوں گا کہ بیوہ خواتین کو باعزت مقام عطا کرنا ایک نیکی اور سماجی فریضہ ضرور ہے۔ مجھ پر بہت تنقید کی جائے گی۔ دراصل ہم مان نہیں رہے کہ ستی کی رسم آج مختلف روپ میں ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکی ہے۔ جس میں بیوہ عورت کوزندہ جلایا تو نہیں جاتا مگر اس کے تمام حقوق سلب کرکے زندہ درگور ضرور کر دیا جاتا ہے۔