محترم الطاف حسین قریشی اور پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ نے کمال کتاب تحریر کی ہے۔ قریشی صاحب سے تو بہرحال نیاز مندی ہے۔ ملاقات بھی ہے اور فون پر کبھی کبھی بات بھی ہو جاتی ہے۔ مگر امان اللہ صاحب، میرے لیے بالکل اجنبی ہیں۔ اس نسخہ نے یہ اجنبیت بھی دور کر ڈالی ہے۔ کتاب کو برادرم عبدالستار عاصم نے چھاپا ہے۔ میرے خیال میں تو عاصم صاحب پر بھی کتاب لکھی جانی چاہیے۔ کیونکہ وہ بلاشبہ ایک نایاب کام سرانجام دے رہے ہیں۔
اس نسخہ کا عنوان تو میں نے لکھ ہی دیا ہے۔ مگر تقریب رونمائی میں شریک نہ ہو پایا۔ وجہ خانگی مصروفیت تھی۔ جسے قطعاً التوا میں نہیں ڈالا جا سکتا تھا۔ خواہش ضرور تھی کہ میں پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ اس تقریب میں ضرور شرکت کروں۔ "اس تحریر کو منسوب بھی نئی نسل کے نام کیا گیا ہے۔ جو قانون کی حکمرانی کا بول بالا کرنے میں سنجیدہ نظر آتی ہے۔ " کتاب سے چند اقتباسات سامنے رکھتا ہوں۔
وائسرائے سے مسلم زعما کی پہلی ملاقات: -اس امید بھرے ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواب آف ڈھاکا سلیم اللہ بہادر نے وائسرائے کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ وہ آئے اور اس علاقے کے عمائدین سے ملے۔ یہ مسلم زعما کا وائسرائے ہند سے پہلا رابطہ تھا۔ اس ملاقات میں اہم سیاسی اور قانونی مسائل پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا اور کسی قدر مفاہمت کی فضا پیدا ہوئی اور ملاقاتوں کا سلسلہ آگے بڑھا۔
نواب سلیم اللہ بہادر کی تاریخی خدمات: - جون 1964میں شاہ باغ ہوٹل ڈھاکا میں مولانا اکرم خاں سے میری ملاقات ہوئی جنھوں نے 1906 میں محمڈن ایجوکیشنل سالانہ کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ نواب سلیم اللہ بہادر نے دو ہزار مندوبین کے تمام اخراجات خود برداشت کیے جو چھ لاکھ روپے سے متجاوز کر گئے تھے، وہ آج کے کروڑوں کے برابر ہیں۔
نواب صاحب نے ڈھاکا یونیورسٹی کے لیے زمین بھی وقف کی اور یہ شرط رکھی کہ اس میں اسلامی علوم کی تدریس لازم ہوگی۔ یونیورسٹی کے ہر ہاسٹل کے لیے مؤذن مقرر کیے گئے جن میں باجماعت نماز ادا کی جاتی تھی۔ اجلاس کے آخر میں نواب سلیم اللہ نے مسلمانوں کی سیاسی جماعت قائم کرنے کی قرار داد پیش کی۔ اس کا نام "آل انڈیا مسلم کانفیڈریسی" تجویز کیا جس کی مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، اور مولانا ظفر علی خان نے دوسرے رہنماؤں کے ساتھ تائید کی۔ اس طرح مسلمانوں کی نمایندگی کے لیے ایک الگ سیاسی جماعت وجود میں آئی جسے ایک سال بعد آل انڈیا مسلم لیگ کا نام دیا گیا۔
مسٹر جناح کو "قائداعظم" کا عوامی خطاب: -محمد علی جناح کی ملی خدمات کا اعتراف مختلف شکلوں میں ہونے لگا۔ جلسوں میں ان کے حق میں نعرے لگ رہے تھے اور عوام و خواص کی زبان پر ان کے لیے قائداعظم کا خطاب بے اختیار آنے لگا۔ مختلف کتب کے مطالعے سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ مسلمانوں نے 1935سے انھیں قائداعظم، کہنا شروع کر دیا تھا۔ معروف صحافی جناب عبدالمجید سالک نے اپنی تصنیف سرگزشت، میں لکھا ہے کہ لاہورسے تعلق رکھنے والے تحریک خلافت کے ایک پرانے کارکن میاں فیروز الدین نے مسلم لیگ کے جلسوں میں قائداعظم زندہ باد، کے نعرے لگا کر اس خطاب کو مقبول بنایا۔
قائداعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید نے اپنی تصنیف Mohammad Ali Jinnah: A Political Study میں تحریر کیا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لکھنؤ اکتوبر 1937 میں مولانا ظفر علی خاں نے محمد علی جناح کو قائداعظم کے خطاب سے مخاطب کیا۔ اسی طرح وزیراعظم پنجاب سرسکندر حیات خاں نے اپریل 1938 میں کلکتہ میں اپنی ایک تقریر کے دوران بار بار مسٹر جناح کے لیے قائداعظم، کا خطاب استعمال کیا۔ الغرض 1938کے اوائل تک محمد علی جناح کے لیے قائداعظم کا خطاب عام ہوگیا تھا۔ اسی ماحول میں گاندھی نے مسٹر جناح کے نام ایک خط میں انھیں مائی ڈیئر قائداعظم، لکھا۔
قرار داد کی تیاری میں انگریزوں کا خفیہ ہاتھ؟: - قرارداد لاہور جب منظور ہوئی، تو میں اس وقت سرسہ میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا۔ وہاں طلبہ اور اساتذہ زیادہ تر غیر مسلم تھے۔ قرار داد لاہور کی منظوری کی خبر ہمارے شہر میں ایک روز بعد پہنچی۔ ہندو پریس نے اسے قرار داد پاکستان کا نام دے کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ یہ قرار داد انگریزوں نے منظور کروائی ہے، تاکہ وہ ہندؤوں اور مسلمانوں کو لڑوا کر حکومت کرتے رہیں۔ ان کے جواب میں اپنے ہم جماعتوں سے کہتا کہ انگریز تو اپنے مفاد کے لیے ہندوستان کومتحد رکھنا چاہتا ہے۔
طلبہ اپنی خفگی کااظہار کرتے اور یہ بھی کہتے رہے کہ تم ہماری گاؤ ماتا کے ٹکڑے کرنا چاہتے ہو۔ میں نے شدت سے محسوس کیا کہ قرار داد لاہور کی منظوری کے بعد میرے ہم جماعتوں اور ان کے بڑوں کا رویہ یکسر بدل چکا ہے اور اس میں بڑی تلخی غالب آ گئی ہے۔ اس کے بعد سات سال شدید کھچاؤ میں گزرے۔ جوں جوں ہندوستان کی تقسیم کا مرحلہ قریب آتا گیا، ہندو دہشت پسند تنظیموں نے اکھاڑوں میں نوجوانوں کو مار دھاڑ کی ٹریننگ دینا شروع کر دی۔
پاکستان کی کانٹ چھانٹ کی سازشیں: -قانون آزادی ہند کی منظوری کے بعد غیر مسلم قیادتوں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگے اور وہ پاکستان کو اسٹرٹیجک علاقوں سے محروم کرنے کی سازش میں پہلے سے کہیں زیادہ متحرک ہوگئیں۔ کانگریس کی برہمن قیادت نے عوام کو دھوکا دینے کے لیے دو مسلم اشخاص کا انتخاب کیا اور ان کے ذریعے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ کانگریس میں تو مسلمانوں کی بڑی اور انقلابی شخصیتیں شامل ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا مسلمانوں میں بڑا احترام پایاجاتا تھا، ان کی تحریروں نے قوم کو جگایا اور انھیں سیاسی طور پر بیدار کرنے میں زبردست کر دار ادا کیا تھا۔ وہ مسلسل پانچ سال کانگریس کے صدر منتخب کیے جاتے رہے۔ البتہ 1946میں انھیں اس وقت بے دست و پا کر دیا گیا جب ہندوستان کی قسمت کے فیصلے ہونے والے تھے۔ ان کی جگہ سیاسی مقصد کے لیے خان عبدالغفار خان کو غیر معمولی اہمیت دی گئی جو صوبۂ سرحد میں سرخ پوش تحریک کے سربراہ تھے۔
تقریب حلف برداری: - 15اگست کو قائداعظم نے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ انھیں جو حلف نامہ بھیجا گیا تھا، اس میں شاہ جارج ششم سے وفاداری کے الفاظ درج تھے۔ روزنامہ ڈان، نے قائداعظم کے مشورے سے اداریہ لکھا اور یہ نکتہ اٹھایاکہ پاکستان کے گورنر جنرل کو صرف آئین پاکستان کا وفادار ہونا چاہیے، چنانچہ حلف نامے میں ترمیم کی گئی اور ایک درمیانی راستہ نکا لا گیا۔ قانون کے تحت نافذ شدہ آئین پاکستان سے وفاداری کے بعد شاہ جارج ششم کے الفاظ بھی درج تھے۔ 15اگست کو جمعتہ الوادع تھا۔ گورنر جنرل کی تقریب حلف وفاداری گورنمنٹ ہاؤس کراچی میں ہوئی۔
قائد اعظم ریشمی شیروانی میں ملبوس تھے۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت سندھ کے وزیر تعلیم جناب الٰہی بخش کے حصے میں آئی۔ قائداعظم کی اجازت سے کابینہ کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی نے تاج برطانیہ کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا جس میں محمد علی جناح، پاکستان کے گورنر جنرل مقرر کیے گئے تھے۔ اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرعبدالرشید نے قائداعظم سے ساڑھے نو بجے صبح حلف لیا۔ اس کے بعد وہ اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور بعد میں انھوں نے وزیراعظم پاکستان نوابزادہ لیاقت علی خاں اور سات رکنی کابینہ سے حلف لیا۔ پوری فضا نعرہ ٔ تکبیر سے گونج اٹھی۔
اس تقریب حلف وفاداری میں قائداعظم نے چین کے صدر مارشل شیانگ کائی شیک اور فرانس کے صدر ونسٹنٹ اور یول کے تہنیتی پیغام پڑھ کر سنائے۔ فضا میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا تھا۔ کروڑوں مسلمانوں نے جمعے کی نماز کے ساتھ آزادی حاصل ہونے پر شکرانے کی نماز ادا کی۔ خوش قسمتی سے اسی رات ہزاروں مہینوں سے بہتر لیلۃ القدر جلوہ گر ہوئی۔ اسلامی برادر ملک ایران نے سب سے پہلے آزاد اور خود مختار پاکستان کو تسلیم کیا۔ نوے برسوں پر محیط آئینی اور سیاسی جدوجہد برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی سے نکال کر آزادی کی بیش بہا نعمت سے سرفراز کر گئی۔
قریشی صاحب اور امان اللہ صاحب نے کتاب تحریر فرما کر ہمیں بتانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ پاکستان کتنی مشکلات سے بنا اور قائداعظم کی فراست کے بغیر یہ عظیم کام ممکن ہی نہیں تھا۔