مزاح نگاری، چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کا ہنر ہے۔ دیکھنے میں تو یہ آسان سا لگتا ہے۔ مگراصلیت میں مشکل اور نازک کام ہے۔ مزاح نگارذاتی زندگی میں اکثر بہت سنجیدہ لوگ ہوتے ہیں۔ مگر اپنے غموں اور دکھوں کو مسکراہٹ کا لبادہ پہنا کر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ بقول مشتاق احمد یوسفی، مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے۔ اگر ہم برصغیر کی ادبی زندگی کا جائزہ لیں تو سب سے پہلے جعفر زٹلی کا نام سامنے آتا ہے۔ محمد جعفر نے اپنے دیوان کا نام بھی زٹل نامہ رکھ چھوڑا تھا۔ جس کے معانی لغویات اور پھکڑ پن کے ہیں۔ مغل دور کے آخری دور کا سب سے بڑا مزاح نگار جعفر زٹلی ہی ہے۔ غالب نے ان کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے۔
"عبدالرشید کی کیا شیخی اور میاں انجو میں کیا پیری ہے۔ قطب شاہ جہانگیرکے عہد میں ہونا اگر منشائے برتری ہے تو بے چارہ جعفر زٹلی بھی فرخ سیری ہے"۔
تین سو سال پہلے کی بات کر رہا ہوں۔ شاید آپ کے علم میں نہیں کہ اس شاعر کو مغل بادشاہ نے، ہجو کی وجہ سے جان سے مروا دیا ہے۔ نمونے کے طور پر زٹلی کے صرف دو قطعے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا ہے
ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے
ہنر مندان ہر جائی پھریں در در بہ رسوائی
رزل قوموں کی بن آئی عجب یہ دور آیا ہے
اینٹیں پرانی گھس چلی، ماٹی تمام رس چلی
کیا دوس ہے معمار کو، کہہ جعفر اب کیا کیجیے
یہ رات اب تاریک ہے اور باٹ بھی تاریک ہے
چلنا کٹھن بیمار کو، کہہ جعفر اب کیا کیجیے
زٹلی کو قتل کیے جانے کے بعد، شعراء حضرات اشرافیہ پر طنز و مزاح کرنے سے اجتناب کرتے رہے۔ ویسے اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو یہی سلسلہ آ ج بھی جاری و ساری ہے۔ بادشاہ وقت پر تنقید کریں تو 2024میں بھی اس کا نتیجہ مقدمات اور جیل ہے۔ اگر عدالت کی زبوں حالی پر گفتگو کریں، تو توہین عدالت آڑے آ جاتی ہے۔ دینی سوداگروں پر بات کرنے کا نتیجہ آج بھی حد درجہ خوفناک ہو سکتا ہے۔ تھوڑا سا آگے بڑھیے تو حد درجہ ذہین شاعر اکبر الہ آبادی نظر آتے ہیں۔ جنھیں لسان العصر کا خطاب دیا جاتا تھا۔ ان کے چند اشعار پیش کرتا ہوں۔
جج بنا کر اچھے اچھوں کا لبھا لیتے ہیں دل
ہیں نہایت خوشنما دو جیم ان کے ہاتھ میں
پہنچنا داد کو مظلوم کا مشکل ہی ہوتا ہے
کبھی قاضی نہیں ملتے، کبھی قاتل نہیں ملتا
حضور! عرض کروں میں جو ناگوار نہ ہو
وہ یہ کہ موت ہی بہتر ہے جب وقار نہ ہو
قوم کی تاریخ سے جو بے خبر ہو جائے گا
رفتہ رفتہ آدمیت کھو کے خر ہو جائے گا
اکبر الہ آبادی ڈیڑھ سو سال پہلے معاشرے کے بگاڑ اور بے ترتیبی کو خوبصورت طریقے سے عام لوگوں کے سامنے اس طرح رکھتے تھے جس سے ان کا پیغام بھی پہنچ جائے اور چہرے پر مسکراہٹ بھی آ جائے۔ ہمارے ہاں ادیبوں اور شعراء کا ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔ وہ دقیق ترین اردو کے الفاظ استعمال کرکے اپنی تحریر کو بوجھل بنا دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ پڑھنے والا اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اصل نقطہ یہ ہے کہ آسان الفاظ میں شاعری اور نثر لکھنا قدرے مشکل ہے۔ ایک چھوٹے سے کالم میں تمام مزاح نگاروں کی بات کرنا تو مکمل طور پر ناممکن ہے۔ مگر کچھ بڑے لوگوں کی تحریر سامنے لانا ضروری ہے۔ سعادت حسن منٹو کو لوگ افسانہ نگاری میں بلند ترین مقام دیتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ منٹو نے مختلف جگہ پر حد درجے پر مزاح تحریر بھی لکھی ہے۔ ایک مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
جب منٹو کی شادی کی خبر گرم ہوئی تو احمد ندیم قاسمی نے ایسے ہی تفصیل پوچھ لی، ذرا جواب ملاحظہ ہو:
"میری شادی ابھی مکمل طور پر نہیں ہوئی۔ میں صرف نکا حیا، گیا ہوں۔ میری بیوی لاہور کے ایک کشمیری خاندان سے تعلق رکھتی ہے، اس کا باپ مر چکا ہے، میرا باپ بھی زندہ نہیں۔ وہ چشمہ لگاتی ہے، میں بھی چشمہ لگاتا ہوں۔ وہ گیارہ مئی کو پیدا ہوئی، میں بھی گیارہ مئی کو پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں چشمہ لگاتی ہے، میری ماں بھی چشمہ لگاتی ہے۔ اس کے نام کا پہلا حرف S، ہے، میرے نا م کا پہلا حرف بھی S، ہے۔ پہلے وہ پردہ نہیں کرتی تھی مگر جب سے اس پر میرا حق ہوا ہے، اس نے پردہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ (صرف مجھ سے!)۔ "
مزاح نگاری میں شفیق الرحمن جیسا سنجیدہ لکھاری بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر دیکھیں تو جدید مزاح نگاری میں شفیق الرحمن نے اپنی دھاک بٹھا رکھی ہے۔ ان کی تحریریں لہریں، پچھتاوئے، حماقتیں اور مزید حماقتیں آج بھی پڑھنے والے کو ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ شفیق الرحمن کی نثر کے چند اقتسابات سامنے رکھتا ہوں۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ بلیاں اتنی مغرور اور خود غرض کیوں ہوتی ہیں؟ میں پوچھتا ہو کہ اگر آپ کو محنت کیے بغیر ایسی مرغن غذا ملتی رہے، جس میں پروٹین اوروٹامن ضرورت سے زیادہ ہوں تو آپ کا رویہ کیا ہوگا؟ بلی دوسرے کا نقطۂ نظر نہیں سمجھتی، اگر اسے بتا دیا جائے کہ ہم دنیا میں دوسروں کی مدد کرنے آئے ہیں تو اس کا پہلا سوال یہ ہوگا کہ پھر دوسرے یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟
اونٹ کی گردن اس کے دھڑ سے 45درجے کا زاویہ بناتی ہوئی دفعتاً جسم سے مل جاتی ہے اور لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اونٹ کی گردن اس لیے لمبی ہے کہ اس کا سر اس کے جسم سے خاصا دور ہے۔ اونٹ کی طبیعت میں انکسار پایا جاتا ہے، وہ مغرور بالکل نہیں ہوتا، شاید اس لیے کہ اس کے پاس مغرور ہونے کو کوئی چیز ہی نہیں۔
بالکل اسی طرح سید محمد جعفری بھی بہت بڑے تحریف نگار گزرے ہیں۔ ان کی شاعری آپ کی نذرکرتا ہوں۔
لاہور میں نہیں ہے رہنے کا گو سہارا
"چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا"
مفت میں کوٹھی ملی، موٹر ملی، پی اے ملا
جب گیا پکنک پہ باہر، ٹور کا ٹی اے ملا
ملک کا غم ہے، نہ ہم کو ملت بیضا کا غم
برق سے کرتے ہیں روشن، شمع ماتم خانہ ہم
یہ کیسا دورہ آن پڑا ہے، یونہی یا سرکاری ہے
یہ ملک اور قوم کی خدمت ہے یا لالچ کی بیماری ہے
اے حب وطن سے بیگانے ڈالر سے جو تیری یاری ہے
گر تو ہے لکھی بنجارہ اور کھیپ تیری بھی بھاری ہے
دوران سفر گر ٹوٹ گئی کابینہ جس میں شامل ہے
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
اسی نام سے تھوڑے سے مختلف نام محترم سید ضمیر جعفری کا ہے۔ جنھوں نے اپنے وقت میں مزاحیہ شاعری کو عروج دیا جس میں شائستگی، ر واداری اور لطافت بدرجہ اتم موجود تھی۔ ضمیر جعفری صاحب غزل کے ساتھ ساتھ آزاد نظم میں بھی طبع آزمائی فرماتے رہے۔ اس میں سے کچھ شاہکار سامنے پیش کرتا ہوں۔
شوق سے لخت جگر، نور نظر پیدا کرو
ظالمو! تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
میں بتاتا ہوں زوال اہل یورپ کا پلان
اہل یورپ کو مسلمانوں کے گھر پیدا کرو
ہرفن مولا انور مسعود، پروفیسر علوی، عطاالحق قاسمی، زاہد فخری اور خالد مسعود ہمارے وہ ادبی اثاثے ہیں جو لفظوں کی ترتیب سے، سننے والوں کے ذہن میں شگفتگی کے پھول برسا دیتے ہیں۔ آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ مزاح نگاری حد درجہ مشکل اور سنجیدہ کام ہے۔ سوچا جائے تو زندگی میں کبھی کبھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دینے والا جھوٹ غلط ہے یا آنکھوں میں آنسو لے آنے والا سچ؟