رات کے آخری پہر مرشد آباد کے ایک حد درجہ خوبصورت محل کے نزدیک، چند سائے خاموشی سے عمارت میں داخل ہو رہے تھے۔ موسلا دھار بارش میں یہ کردار، اتنے پراسرار طریقے سے محل کے بڑے کمرے میں داخل ہوئے، کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
ان کے پیروں کی چاپ تک معلوم نہ ہوپائی۔ مگر یہ محسوس نہ ہونے والی منحوس آواز نے برصغیر کو اگلے دو صدیوں کے لیے غلام بنا کر رکھ دیا۔ آنے والے لوگوں میں ایک برطانوی افسر، ولیم واٹس تھا۔ اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرمانروا رابرٹ کلاوؤ نے حد درجہ خفیہ سازش کے تحت بھجوایا تھا۔
دیدہ زیب محل، بنگال کے سپہ سالار، میر جعفر کا تھا۔ اس کے ساتھ میر میرن براجمان تھا جو میر جعفر کا بیٹا تھا۔ اس ملاقات میں سپہ سالار نے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر ولیم واٹس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پلاسی کی جنگ میں نواب سراج الدولہ کو دھوکا دے گا اور اس کے ماتحت پوری فوج انگریزوں کی پاسداری کرے گی۔ انگریز افسر کے لیے یہ حد درجہ خوش کن موقع تھا۔ مگر برصغیر کی تاریخ میں ایک ملعون ترین ساعت تھی۔ سپہ سالار کے بیٹے کی ایک خواہش مزید بھی تھی۔ یہ تو طے ہوگیا تھا کہ سراج الدولہ کے ساتھ دھوکا کرنا ہے۔ مگر میرمیرن کا اصرار تھا کہ نواب کو قتل کرنے کے بعد، نشان عبرت بنانا ہے۔
اس کی لاش کی مکمل بے حرمتی کرنی ہے۔ یاد رہے کہ یہ جب یہ تانے بانے بنے جا رہے تھے تو سراج الدولہ زندہ تھا اور انگریزوں سے برسرپیکار تھا۔ وہم و گمان میں بھی نہیں تھاکہ اس کا حددرجہ اعتماد والا ساتھی، اسے چھوڑ کر فرنگیوں سے جا ملا ہے اور اس کے قتل تک کا سامان مکمل کر لیا گیا ہے۔ جولائی 1757میں، جنگ پلاسی ہوئی۔ سازش کے بالکل عین مطابق، سپہ سالار کے حکم پر، پوری فوج، پیچھے ہٹ گئی۔ نواب کے ساتھ گنتی کے چند افراد اور سامنے گوروں کا بھرپور لشکر تھا۔
سراج الدولہ پوری قوت سے لڑا۔ مگر، اس کی افرادی قوت اتنی کم تھی کہ جنگ میں بچنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ چند وفادار سپاہیوں کی مدد سے وہ میدان جنگ سے نکلا اور جان بچانے کے لیے مرشد آباد کا رخ کیا۔ گمان تھا کہ وہ کسی محفوظ جگہ پر پہنچ کر اپنی وفادار فوج کو دوبارہ ترتیب دے گا۔ قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اس کے قتل اور لاش تک کا سودا ہو چکا ہے۔ قیامت خیز سچ یہ بھی ہے کہ جنگ سے واپسی پر وہ اپنے غدار سپہ سالار کے گھر کے قریب سے گزرا۔ تو میر میرن نے قتل کے تمام انتظامات مکمل کر رکھے تھے۔ جیسے ہی نواب، محل کے نزدیک آیا، تو میر میرن کے اشارہ پر ایک شخص نے نواب پر جان لیوا حملہ کیا۔ نواب زخموں کی تاب نہ لا کر وہیں شہید ہوگیا۔
محل کی ڈیوڑھی کے سامنے، ایک نیم کا درخت تھا۔ نواب کو اس سایہ دار درخت کے سامنے اپنے ہی لوگوں نے شہید کر ڈالا۔ پر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ اس کے بیٹے نے لاش کی مکمل بے حرمتی کی جو کہ فرنگیوں سے معاہدے کے مطابق تھی۔ نواب کی لاش، بے گورو کفن وہیں چھوڑ دی گئی۔ صبح ایک کمزور سا ہاتھی منگوایا گیا۔ نواب کی لاش کو اس پر ڈال کر پورے شہر میں گھمایا گیا۔ جب لاش سراج الدولہ کی والدہ، آمنہ بی بی کے گھر کے سامنے سے گزری۔ تو وہاں ہاتھی کو روک کر، سراج الدولہ کی نعش کی مزید بے حرمتی کی گئی تاکہ والدہ کو حددرجہ تکلیف پہنچائی جا سکے۔
یہ سلسہ ڈیڑھ دن چلتا رہا۔ اس کے بعد نواب سراج الدولہ کو دفن کیاگیا۔ پلاسی کی جنگ 2جولائی 1757 کو ہوئی۔ اسی دن سراج الدولہ شہید ہوئے۔ اس کے دو سو برس بعد تک، انگریزوں نے برصغیر کو روند ڈالا۔ میر جعفر کی غداری نے برصغیر کو غلامی کا وہ طوق پہنا دیا جس سے نکلنا حد درجہ عذاب تھا۔ اس حقیقت کا دوسرا رخ بھی ہے۔ سراج الدولہ کے بعد، میر جعفر، بنگال کا حکمران بنا دیا گیا۔ مگر لوگوں میں اس کے خلاف حددرجہ منفی جذبات تھے۔ میر جعفر نے انگریزوں کو پانچ لاکھ پاونڈ کا نذرانہ پیش کیا۔ علاوہ ازیں، کلکۃ میں بسنے والے انگریزوں کو ڈھائی لاکھ پاؤنڈ، تحفہ کے طور پر فراہم کیئے۔ یہ اس لیے کہ سراج الدولہ کی جنگوں کی وجہ سے انگریز باسیوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے نقصانات پورے کیے جا سکیں۔ اسے اندازہ تھا کہ لوگ غداری کی بدولت، اس کو شدید ناپسند کرتے ہیں۔ لہٰذا میر جعفر ہروقت افیم کھاتا رہتا تھا۔
نشے کی حالت میں شب و روز گزارنے لگ گیا تھا۔ عمر کے آخری حصے میں اسے مرگی کے دورے پڑتے تھے۔ اس کی حکمرانی، اس کے داماد، میر قاسم نے ہتھیا لی۔ مگر انگریزوں نے اسے اپنا غلام گردانتے ہوئے تھوڑی مدت کے لیے دوبارہ بنگال کا نواب بنا دیا۔ میر جعفر کے مرنے کے بعد اس کے خاندان کی حکومت بھی بہت جلد ختم ہوگئی۔ مگر لوگوں کے دل کی بھڑاس نہ نکل پائی۔ میر جعفر کا عالیشان محل، مکمل طور پر تباہ ہوگیا اور اس کے باہر والے دروازے کے محض آثار رہ گئے۔ سرخ رنگ کی اینٹوں سے بنا ہوا یہ دروازہ، آج بالکل بے حیثیت ہو چکا ہے اور اسے مقامی لوگ "نمک حرام ڈیوڑھی" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ کئی لوگ، وہاں پر تھوک کر آگے نکلتے ہیں۔ میرجعفر اور اس کا خاندان، برصغیر کی تاریخ کے نفرت انگیز کرداروں میں سے ایک ہے۔
جنگ پلاسی میں غداروں نے جو عمل شروع کیا تھا۔ تاریخ نے اس کا فیصلہ تو بہرحال کر ڈالا۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ 1947کے بعد، میر جعفروں کا ایک سیلاب پاکستان میں آن بسا۔ اس غدار کے نام کو صرف استعارے کے طور پر استعمال کریں۔ تو آپ کو سب کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔ پاکستان اور ہندوستان، ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ جواہر لال نہرو مسلسل سترہ برس، ہندوستان کا وزیراعظم رہا۔ اس نے جدید ہندوستان کی ٹھوس بنیادیں رکھ ڈالیں۔ نہرو اور ابو الکلام آزاد نے تعلیمی اداروں کا وہ جال بچھایا جس کا پھل آج ہندوستان کا نوجوان طبقہ بڑے سکون سے کھا رہا ہے۔ نہرو نے، ایک حددرجہ قومی مفاد کی پالیسی اپنائی اور ہندوستان کو حقیقت میں انگریزوں کی ریشہ دوانیوں سے آزاد کروایا۔
مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک عزیز میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکا۔ ہمارے یہاں، میر جعفر جیسے غدار، تسلسل سے حکومت میں آتے رہے اور ملک کو برباد کرتے چلے گئے۔ 1947کوئی دور کی بات نہیں۔ حکومت نے بریگیڈیئر ایوب کو ہندوستان سے پاکستان آنے والے قافلوں کی حفاظت کا ذمے دیا تھا۔ مگر وہ شخص، کئی ہفتے رنگ رلیاں مناتا رہا۔ اس کی غفلت کی وجہ سے، مسلمان پنجاب اور دیگر علاقوں میں گاجر مولی کی طرح کٹتے رہے۔ قسمت کا کھیل دیکھیے، کہ قائداعظم کی شدید مخالفت کے باوجود، ایوب خان ہر طریقے سے محفوظ رہا۔ بعد میں اس نے سازشوں کا وہی جال بنا، جو میر جعفر جیسے لوگوں کا خاصہ ہوتا ہے۔
کیا سکندر مرزا اور غلام محمد، ہماری ابتدائی سیاسی تاریخ کے منفی کردار نہیں ہیں۔ انھوں نے آئین شکنی اور عوامی مفاد کے خلاف وہ وہ اقدامات کیے، کہ ملک، شروع کے دنوں ہی سے زوال کا شکار ہوگیا۔ وہی ایوب خان، جس کے متعلق قائداعظم نے کہا تھا کہ یہ افسر، عسکری معاملات کے بجائے سویلین معاملات میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
وہی انسان، ملک کا سپہ سالار بنا اور ملک کو مارشل لاء کا غلیظ تحفہ دیا۔ یہ اسی کی طفلانہ پالیسیاں تھیں، جن کی وجہ سے مغربی اور مشرقی پاکستان کے مابین نفرت کا وہ سلسلہ شروع ہوا، کہ تھوڑے عرصے ہی میں ملک دو لخت ہوگیا۔ یحییٰ خان کیا تھا۔ کیا اس میں اور 1757کے میر جعفر میں کسی قسم کا کوئی فرق تھا۔ ہرگز نہیں۔ یحییٰ خان بذات خود کیا تھا؟ اس کی عادات کیا تھیں؟ اس کی حد درجہ غلیظ پالیسیوں نے پوری دنیا میں ہمیں ذلت کا نشان بنا کر رکھ دیا۔ کیا وہ اپنے دور کا میر جعفر نہیں تھا۔ جناب بالکل تھا۔ ضیاء الحق نے ہمارے ملک کے امن کو ہمیشہ کے لیے گروی رکھ دیا۔ ذاتی اقتدار کے دوام کی خاطر، اس شخص نے ہمیں ایک ایسی دلدل میں پھنسا دیا جس میں سے ہم آج تک باہر نہیں نکل سکے۔ کیا وہ اپنے دور کا میر جعفر نہیں تھا۔ بالکل تھا۔ بس نام اور چوغہ مختلف تھا۔
دور کیوں جاتے ہیں۔ گزشتہ دس بارہ برس کے منفی کرداروں کو غور سے دیکھیے۔ آئی پی پی کا عذاب، لوگوں نے تو پیدا نہیں کیا؟ جب ہماری بجلی کی ضرورت چالیس ہزار میگاواٹ نہیں ہے تو اس ہوش ربا تعداد میں آئی پی پی لگانے کا عمل کیوں کیا گیا۔ کیا یہ اس ملک کے ساتھ غداری نہیں ہے؟ جذباتیت اور کسی بھی سیاسی وابستگی کے بغیر جواب دیجیے۔ کیا ملک کے حکمرانوں کی اجازت کے بغیر نجی بجلی گھرخود بخود لگ گئے۔ صاحب نہیں۔ اس میں سب ملوث تھے اور ہیں۔ ہمارے بدقسمت ملک میں تو ہر سطح پر متعدد میر جعفر ہوتے ہیں۔ یہ ملکی مفاد کو داؤ پر لگاتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ تاریخ چند صدیوں میں ان کے پر شکوہ محلات کو نمک حرام ڈیوڑھی میں تبدیل کر دے گی؟