کرنل زیڈ آئی فرخ ریٹائرڈ آرمی افسر ہیں۔ مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی کے دوران ڈیوٹی دیتے رہے۔ حددرجہ مخلص، محب وطن اور بھر پور انسان ہیں۔ ان سے شناسائی، اب دوستی میں بدل چکی ہے۔ دو تین برس سے، جو بھی سنجیدہ معاملہ زیر بحث ہو، ان کا سکہ بند جواب ہوتا ہے کہ ہر مشکل کا حل، پبلک سوموٹو ہے۔ شروع شروع میں تو طالب علم اس اصطلاح کو سمجھ نہیں پایا۔ بار ہا پوچھا تو وہ مدلل جواب دیتے رہے۔ کچھ عرصہ پہلے کرنل فرخ نے اس عنوان سے ایک کتاب لکھ دی۔
کمال مہربانی یہ بھی فرمائی کہ غریب خانہ پر تشریف لائے اور کتاب عنایت فرمائی۔ حسب عادت، اس کتاب کو ایک طرف رکھ چھوڑا، تاکہ بقول کرشن چندر، پال میں لگ جائے۔ پہلی فرصت میں اسے نہایت دلچسپی سے پڑھ ڈالا۔ کمال تحریر ہے۔ یہ کتاب اصلاحات کرنے کے متعلق، ایک راستہ ہے۔ جو کرنل (ر) فرخ نے تجویز کیا ہے کہ معاشرتی، سیاسی، عدالتی، تعلیمی اور تحفظ عامہ یعنی ہر شعبہ پر کیسے پیش رفت کرنی ہے۔ کمال بات ہے کہ یہ کتاب بھی قلم فاؤنڈیشن نے شائع کی ہے۔ عبدالستارعاصم صاحب ان لوگوں میں شامل ہیں جو معاشرے میں علم کی قندیل روشن رکھے ہوئے ہیں۔
کتاب کے چند اکتسابات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ پیش لفظ میں کیا خوبصورت بات لکھی ہے: آج پاکستان کا پچھترواں یوم آزادی ہے۔ وطن عزیزمیں عجیب طوائف الملوکی کا دوردورہ ہے۔ ہر شہری عدم تحفظ کا شکار نظر آتا ہے، گھر، گلی محلے سے لے کر اوورسیز پاکستانیوں تک۔ ہر محفل کا واحد موضوع سیاست تو بن چکا ہے مگر سیاسی فرقہ بندی اس قدر سخت ہوگئی ہے کہ کہیں سے بھی ہم آہنگی کی خوشبو نہیں آتی۔
معاشرتی اصلاحات کے باب میں فرخ صاحب بیان کرتے ہیں۔ ہمارا ملکی نظام کافی حد تک مفلوج ہو چکا ہے۔ جس کی غالب وجہ کمپرومائزڈ سوسائٹی ہے۔ مگر یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ نظام درست کرنے کی سوچ مر چکی ہے، صدی کے کروٹ لینے اور میڈیا کے گلوبل ہونے کے ساتھ ہی نئی نسل میں ایک نیا احساس جاگ گیا جو پرانے نظام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگا۔ یہی نوجوان پرانے سسٹم کے خلاف صف آرا ہیں۔
ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ادھر پرانے شکاری انھیں اپنے جال سے نکلنے نہیں دینا چاہتے اور یہی ہمارے ہاں اصل رسہ کشی ہے۔ جوانوں کی بڑھتی اور بوڑھوں کی گھٹتی ہوئی طاقت کے مقابلے میں فتح تو جوانوں کی ہی ہوگی، مگر کوشش کرنی چاہیے کہ مقابلہ خونی نہ بن جائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کئی عشروں کے عمل سے عام آدمی اپنے عمومی حقوق اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے طاقتور استحصالی گروپ کو تسلیم کرتا چلا گیا اور وہ گروپ اس کے اعصاب کو کنٹرول کر گیا۔ عوام کی سوچ اتنی محدود ہوگئی کہ وہ راہزن کو رہبر، زہر دہندہ کو مسیحا، اور ان کی اولاد کو اپنا مستقبل سمجھنے لگ گئے۔
سیاسی اصلاحات کے باب میں کیا خوبصورت باب باندھا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کا معاملہ کافی غور طلب ہے۔ ابتدائی مسلم لیگ کے بعد ہم منطقی اور قابل عمل نظریے پر قائم کوئی بھی سیاسی پارٹی نہ بنا سکے۔ سیاسی پارٹیاں ملکی یکجہتی کی امین ہونی چاہئیں۔ پارٹیوں کے جھنڈے اور ان کے نظریاتی نعرے ملک کے ہر حصے میں نظر آئیں تو ہی یکجہتی مضبوط ہوگی۔
ہمارے ہاں پارٹیاں پہلے علاقائی بنیں مگر پھر برصغیر کی قدیم روایت کے مطابق غالب افراد کے گرد جتھے بن کر رہ گئیں۔ جتھوں سے راجواڑے بنا کرتے ہیں، قومی سیاسی پارٹیاں نہیں۔ پاکستان کے عوام کو سوچنا ہوگا کہ اپنی وفاداریاں مکمل طور پر کسی فرد یا شخصی جتھے کی جھولی میں ڈالنے کی بجائے کس طرح اپنے ملک اور اس کے ذریعے اپنی آئندہ نسلوں کی ترقی کے لیے استعمال کرنی چاہیں۔ اس مضمون میں الیکشن کمیشن کی تشکیل نو، الیکشن کا نیا نظام، صوبوں کی از سر نو تشکیل شامل ہیں۔
عدالتی اصلاحات کی بابت لکھا ہے۔ اور عدالتوں کی موجودہ صورت کیا ہے۔ اس پر حد درجہ بہادری سے کام لے کر رقم طراز ہیں۔ عدالتیں۔ ہم نے عدالتوں کو دو کیٹیگریز میں بانٹ رکھا ہے۔ نچلی سطح کی عدالتیں (Lower Courts) اور اعلیٰ عدالتیں (Higher Courts)۔ دونوں کیٹیگریز میں ججز کی تعیناتی، فنڈز، طریقہ کار، یہاں تک کہ ماحول ہی مختلف ہے۔ نچلی عدالتوں میں پولیس اور ٹاؤٹ کلچر اور مارکیٹ کا ماحول نظر آتا ہے۔ جب کہ اعلیٰ عدالتیں سیاسی طاقتوں کے مقدمات میں الجھی ہوئی ہیں۔
ان اقدام کے نتیجے میں درج ذیل فوائد کا حصول متوقع ہے:
پہلا، عدلیہ کا ایک ہی ڈھانچہ ہوگا اور نچلی و اعلیٰ عدالتوں کی تقسیم ختم ہو جائے گی جو تقاضائے انصاف کے عین مطابق ہوگا۔ دوسرا، عدلیہ کا اسٹرکچر پروفیشنل اور کیریئر ججوں پر استوار ہوگا جنھیں روز اول سے ہی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ کر اپنی قابلیت ثابت کرنا اور قوم کو صحیح انصاف بہم پہنچانا، اپنی ایک جست میں نظر آتا ہوگا۔
تیسرا، چونکہ اس کیڈر کے کیریئر افسر اپنی سروس کا آغاز ڈسٹرکٹ/ تحصیل کورٹس سے کریں گے۔ لہٰذا عوام کو چھوٹی عدالتوں سے ہی انصاف ملنا شروع ہو جائے گا۔ چوتھا، ججز پر سیاسی پارٹیوں اور چیمبرز وغیرہ کے ذریعے آنے کا الزام نہیں ہوگا۔ وہ اپنی کارکردگی سے اپنا نام بنانے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔
تحفظ عامہ: معاملہ عوامی رویوں کا بھی ہے۔ جہاں انفرمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو سکیڑ دیا ہے وہیں ہم بکھر بھی گئے ہیں۔ ہمارے ہاں عالمی میڈیا نیٹ ورک موجود ہے مگر ان پر خبریں تھوڑی اور افواہیں زیادہ ہیں۔ جرنلزم بھونڈا اور علم و آگہی سے دور ہے۔ لہٰذا ہمارے لوگ بھی افواہوں میں کرکٹ میچ کی طرح دلچسپی لیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ عوام نظریاتی حکمرانی سے دور، شعبدہ بازوں اور حکمرانوں کے کارندوں کے قریب رہنے میں بہتری محسوس کرنے لگے گئے ہیں۔
اس ا مر نے نچلی قیادت سے اوپر تک عوامی حقوق کی بجائے خصوصی مراعات کی سوچ کو پروان چڑھایا ہے۔ پھر جو لوگ خصوصی مراعات نہیں رکھتے وہ پیسے کا سہارا لیتے ہیں۔ اب عوام میں اپنے حقوق کا شعور اور پولیس سے کسی سسٹم کے تحت ڈائریکٹ رابطے ہی پولیس کو مؤثر اور عوام کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
احساس تحفظ: عوام میں احساس تحفظ ہی ریاست کا پہلا فریضہ ہے مگر آج کا شہری یہ محسوس کرتا ہے کہ تحفظ کا حق صرف خاص لوگوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔ ہمیں"تحفظ مجرمان" کے تاثر کو یکسر ختم کرنے، "تحفظ خواص" کو مناسب درجہ دینے اور "تحفظ عامہ" کو مطمع نظر بنانے کی ضرورت ہے۔ لاء اینڈ آرڈر فورسز کو Proactiveبننے اور مؤثر Preventive اقدامات کے لیے صاف انٹیلی جنس کا بروقت حصول ایک ناگزیر حقیقت ہے جو ایک مربوط سوسائٹی اپنے کمیونٹی نیٹ ورک کے ذریعے ہی بہم پہنچاسکتی ہے۔
تعلیم: کچھ غور طلب نکات یہ ہیں۔
-1ایک ایسی قوم تیار کی جائے جس کے بچے بلا تفریق ایک ایسے ماحول میں پرورش پائیں جہاں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع موجود ہوں۔ سوسائٹی مربوط اور قانون کی بالا دستی پر اعتماد ہو۔
-2 اگرچہ گھر میں رائج رسوم و عقائد کی تقلید سے ہی بچوں کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ مگر ایسا سسٹم بنایا جائیں کہ بچہ تقلید سے تحقیق تک کا ذہنی سفر طے کر جائے۔ تقلید ذہنوں کو محدود اور محکومیت پسند بنا دیتی ہے۔ ساری کتاب پر بات کرنی تو خیر ناممکن ہے۔ مگراس شعر سے اختتام کرنا مناسب ہوگا۔
تو اے مسافر شب خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغ جگر سے نورانی
(اقبال)