وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں مکمل خاموشی تھی۔ کھانے کی میز پر ہندوستان کی سربراہ، اندراگاندھی اکیلی آہستہ آہستہ کھانے میں مصروف تھیں۔ چہرے پر پریشانی کی چھاؤں لرز رہی تھی۔ کونے میں ایک ٹی وی موجود تھا مگر اندرا گاندھی نے اسے آن کرنے کا حکم نہیں دیا۔
1977کا دورانیہ تھا اور اس دن پورے ملک میں ووٹ پڑ رہے تھے۔ ہمسایہ ملک میں الیکشن سے پہلے جز وقتی حکومت جیسا کوئی سنگین مذاق نہیں ہے۔ لہٰذا کانگریس کی حکومت کے دوران ہی حسب ضابطہ اور حسب دستور الیکشن جاری و ساری تھا۔ پوری دنیا کے لیے اندرا گاندھی ایک آئرن لیڈی بن چکی تھی۔
اس کے کارناموں میں پاکستان کے مشرقی حصے کو طاقت کے بل بوتے پر فتح کرنا بھی شامل تھا۔ وزیراعظم ہاؤس میں ویٹر آہستہ آہستہ، خاموشی سے چل رہے تھے۔ اندرا گاندھی کسی گہری سوچ میں مبتلا تھی۔ اصل میں واقعہ یہ تھا کہ ہندوستان میں اس دن ووٹوں کا نتیجہ آنا تھا اور پتہ چلنا تھا کہ اگلی حکومت کونسی سیاسی جماعت بنائے گی۔
آر کے دھون جو وزیراعظم کا سب سے قریبی پرائیویٹ سیکریٹری تھا، اپنے کمرے میں الیکشنز کے نتائج کو ترتیب دے رہا تھا۔ رات گئے یہ واضح ہو چکا تھا کہ کانگریس بری طرح الیکشن ہار چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں جنتا پارٹی الیکشن میں کامیاب ہو چکی تھی۔ سوال یہ تھا کہ وزیراعظم کو اس قیامت خیز خبر کو کون بیان کرے۔ آر کے دھون کرسی سے اٹھا اور وزیراعظم کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا۔ اندرا گاندھی نے اس کے چہرے پر نظرڈالی اور پوچھا کہ کیا خبر ہے۔ دھون نے بڑے ادب سے وزیراعظم کو بتایا کہ کانگریس پارٹی بری طرح الیکشن ہار چکی ہے۔
اس سے بھی بڑی خبر یہ تھی کہ اندرا گاندھی یعنی وزیراعظم اپنی ذاتی سیٹ بھی ہار چکی تھیں۔ پرائیویٹ سیکریٹری کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے اندرا کاچہرہ پڑھا جس پر تناؤ مکمل طور پر ختم ہو چکا تھا۔ وزیراعظم نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اب وہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزار پائے گی۔ دھون کا کہنا ہے کہ اندرا گاندھی نے، الیکشن کی ہار کو حد درجہ نفاست اور شرافت سے قبول کیا۔ اپنے ذاتی نوکروں کو بلایا اور کچھ سنے کہے بغیر حکم دیا کہ ذاتی سامان پیک کر دیا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ضابطے کی کارروائی کے بعد فوراً سرکاری رہائش گاہ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ سچا واقع اندرا گاندھی کے معتمد خاص دھون نے ایک انٹرویو میں بیان کیا۔ مگر اس سے پہلے کی صورت حال بھی جاننا ضروری ہے۔ 1975میں اندرا گاندھی نے پورے ملک میں ایمر جنسی لگا دی۔ جس میں انسانی حقوق، آزادی اظہار پر مکمل پابندی اور سیاسی اجتماعات پر بھرپور پابندی شامل تھی۔ جون 1975کی بات ہے۔
یہ غیر معمولی صورت حال دو سال کے قریب رہی۔ اسی دورانیہ میں اندرا گاندھی کے سیاسی مخالفین، قائدین اور کارکنان کو نظر بند کر دیا گیا۔ عدالتوں سے کسی کو رہائی ملتی تو ضلعی انتظامیہ اسے فوری طور پر کسی اورکیس میں گرفتار کر لیتی۔ اقتدار کی غلام گردشیں حد درجہ ظالم ہوتی ہیں۔
الیکشن سے چند ماہ پہلے، ہندوستانی انٹیلی جنس بیوروکے سربراہ نے معلومات فراہم کی تھیں کہ کانگریس لوک سبھا میں کم از کم 340کے قریب سیٹیں حاصل کرے گی۔ رپورٹ وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری پی این دھر کے توسط سے وزیراعظم کو پیش کی گئی تھی۔ حد درجہ اہم بات یہ ہے کہ مغربی بنگال کے وزیراعلیٰ سدھارتا شنکر رے نے اندرا گاندھی کو 1975میں ایمر جنسی نافذ کرنے کی پٹی پڑھائی تھی۔
اسی کے مشورے سے وزیراعظم ہندوستان نے ایک حد درجہ غیر مقبول اور غیر سیاسی قدم اٹھا لیا تھا جس کی سزا کانگریس کو دھائیوں تک ملتی رہی۔ لیکن اس کے اندر ایک معاملہ اور بھی تھا، سنجے گاندھی عملی طور پر ہندوستان پر بذات خود حکومت کر رہا تھا۔ اسے ایک ولی عہد کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں سنجے گاندھی کا بھرپور کردار تھا۔ مگر یہ سچ اندرا گاندھی نے مرتے دم تک قبول نہیں کیا۔
اولاد اتنی ظالم چیز ہے جسے قرآن پاک نے آزمائش کا نام دیا ہے۔ اس امتحان میں بڑے بڑے اصول پسند اور قدآور لوگ ناکام ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان کی آئرن لیڈی بھی اس آزمائش میں بری طرح ناکام ہوگئی۔ کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزراء اعلیٰ سنجے گاندھی کی خوشنودی حاصل کرنا لازم سمجھتے تھے۔
ہندوستان کی جمہوری روایات کم سے کم ہمارے ملک سے ہر لحاظ سے بہتر رہی ہیں۔ ایمرجنسی لگانے سے تھوڑا سا قبل الہٰ آباد ہائی کورٹ نے اندرا گاندھی کا لوک سبھا کا چناؤ غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ دھون کے بقول، وزیراعظم نے استعفیٰ کا خط تیار کر لیا تھا مگر کابینہ کے بزرگ ارکان نے اندرا گاندھی کو مستعفی ہونے سے روک دیا۔ دھون ایک جگہ یہ بھی لکھتا ہے کہ سنجے گاندھی کو بھرپور اقتدار اور طاقت میں توازن قائم کرنے کا قرینہ نہیں آیا۔ اقتدار اعلیٰ نے اسے مکمل اندھا کر دیا۔ اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ کانگریس کے تمام سیاسی مخالفین سختی سے کچل دیے جائیں۔
اندرا گاندھی نے بڑی متانت کے ساتھ سیاسی شکست کو قبول کیا اور اقتدار سے علیحدہ ہوگئی۔ مرتے دم تک اپنے بیٹے کی عوام کے ساتھ زیادتیوں سے پردہ پوشی کرتی رہیں۔ سنجے گاندھی کے مرنے کے بعد اس کا بڑا بھائی راجیو گاندھی کانگریس کے سیاسی عمل میں شریک ہوگیا اور بعد میں وزیراعظم کے عہدے تک پہنچا۔ مگر اس وقت سے پہلے اندراگاندھی اتنی بھیانک سیاسی غلطیاں کر چکی تھی جس کا خمیازہ اسے اپنے محافظوں سے قتل کی صورت میں ملا۔
گولڈن ٹیمپل آپریشن کا رد عمل اس قدر بھرپور تھا کہ اندرا کو اس کے سب سے وفادار سکھ ذاتی محافظوں نے گولیوں سے بھون کر رکھ دیا۔ اس طرح ہندوستان کی ایک دیومالائی شخصیت اپنے اختتام تک پہنچ گئی۔ مگر یہاں ایک باریک نقطہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں عام آدمی نے سرکاری طاقت کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور بھرپور طریقے سے کانگریس کو دھول چٹا دی۔
اس کے ساتھ ساتھ عام آدمی نے ایک اور مضبوط پیغام دیاکہ سیاسی جماعتوں میں موروثیت قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔ ہندوستان میں ایمر جنسی جیسے بھیانک دور میں امید کی کوئی چنگاری اور کرن سامنے نہیں تھی۔ مگر عام الیکشن میں ووٹ کی طاقت سے لوگوں نے طاقت کا پانسا پلٹ لیا۔ اور یہ ہزیمت، اندرا گاندھی نے حد درجہ شائستگی سے قبول کی۔ بیٹے کا کہنا تھا کہ اس کی ماں اور وہ اگلے بیس پچیس سال حکومت کریں گے۔ مگر ووٹ کی طاقت نے ان کے خوابوں کو چکنا چور کرکے رکھ دیا۔ یہاں یہ بھی کہنا غیر مناسب نہیں ہوگاکہ وزیراعظم نے ہارنے کے بعد نتائج میں تبدیلی یا اس طرح کی کسی خرافات میں اپنے آپ کو ملوث نہیں کیا۔ خاموشی سے اپنی ذاتی رہائش گاہ میں منتقل ہوگئی۔
اس کے بالکل برعکس ہمارے ملک میں الیکشن کے ذریعے کبھی بھی کسی تبدیلی کو قبول نہیں کیا گیا۔ اس سے بڑی بات کیا ہوگی کہ دو دن پہلے، امریکا کے انڈرسیکریٹری آف اسٹیٹ ڈونلڈ لو نے وزارت خارجہ کی کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ پاکستان میں ہر الیکشن میں ہمیشہ مسائل ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دھاندلی، ووٹ کی چوری، ناجائزحکومتیں ہمارے سیاسی نظام کا شروع سے وہ حصہ ہیں جس پر ہمیں کسی قسم کی کوئی شرمندگی نہیں۔ یہ بات بھی عجیب ہے کہ ہماری حکومت نے ڈونلڈ لو کی اس تحقیر آمیز بات کو کسی سطح پر چیلنج نہیں کیا۔
2024 کے الیکشن نے ہمارے سیاسی تضادات کو بھرپور طریقے سے اجاگر کر ڈالا ہے۔ سوشل میڈیا اس معاملے میں ایک انقلاب برپا کر چکا ہے۔ الزام لگایا جا رہا ہے کہ الیکشن میں ووٹوں کے اندر تبدیلی کی گئی ہے۔ پنجاب میں، ماضی کی سب سے مضبوط سیاسی جماعت یعنی مسلم لیگ ن کو بھی شکست کے خطرات رہے۔ یہی حال کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں رہا۔ حالیہ الیکشن نے پاکستان کی سیاست کو بھرپور طریقے سے تبدیل کرکے رکھ دیاہے۔ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون وزیراعلیٰ ہے اور کون وزیراعظم۔ مجموعی طور پر شفافیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سیاسی استحکام پیدا کرتے کرتے نتائج کو تبدیل کیا گیا ہے۔
اس نے ایک سیاسی بھونچال کو جنم دے دیا ہے۔ یہ زلزلہ، کس وقت پورے نظام کو زمین بوس کر دے، کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ اس امرسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تحریک انصاف، ن لیگ اور پیپلز پارٹی حکومت میں ہیں۔ اصل نقطہ صرف ایک ہے کہ عام آدمی کے ووٹ کو پامال کیا گیا ہے۔ اور یہ بات کل ڈونلڈ لو نے تسلیم کی ہے۔ ہمارے پاس سیاسی شائستگی کی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ وگرنہ ہارے ہوئے شخص کبھی بھی تخت پر براجمان نہ ہوتے۔ آنے والا وقت ہمارے ملک کے لیے پل صراط ہے۔ ہم بحیثیت ملک اس کوعبور کر پاتے ہیں یا نہیں۔ اس کا فیصلہ مستقبل قریب میں ہو جائے گا۔