1981 میں جب سلیم اقبال سے ملاقات ہوئی تو یہ حسن اتفاق تھا۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے ہاسٹل کے دائیں طرف بلکہ پیچھے گوالمنڈی کا علاقہ ہے، عموماً اسے دیسی کھانوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے مگر بہت کم لوگو ں کو یاد ہوگا کہ گوالمنڈی کے عین درمیان ستار اور دیگر موسیقی کے آلات بنانے کی ایک سادہ سی دکان تھی۔ جب بھی وہاں سے گزر ہوا تو ایک نوجوان آدمی بڑی تندہی سے مختلف ساز بنا رہا ہوتا تھا۔ ایک دن صرف تجسس کے باعث اس دکان میں چلا گیا۔ تو وہ نوجوان لکڑی کو کاٹ کر خوبصورت سانچے میں ڈھال رہا تھا۔ آج اس دکان میں دو آدمی اور بھی تھے۔
ایک لڑکا جس کا نام حنیف تھا وہ بھی آلات موسیقی بنا رہا تھا۔ ساتھ ہی سفید بالوں والا ایک لحیم شحیم آدمی کرسی پر بیٹھا تھا۔ گفتگو شروع ہوئی تو اجنبیت کا احساس جاتا رہا۔ سادگی کا دور تھا، تصنع اور جعلی مہمان داری حد درجہ کم تھی۔ پتا چلا کہ کرسی پر بیٹھا بوڑھا شخص موسیقاراستاد سلیم اقبال ہیں۔ انھوں نے کئی مشہور فلمی گانوں کی دھنیں ترتیب دی تھیں اور سلسلہ ابھی جاری و ساری تھا۔ میں نے انتہائی مروت سے ان لوگوں کو ہاسٹل آنے کی دعوت دی۔ پھر یہ سلسلہ دوستی میں بدل گیا۔ حنیف، استاد سلیم اقبال صاحب کا شاگرد تھا۔ کمال کی آواز پائی تھی۔
مجھے یقین تھا کہ حنیف اس ملک کے بہترین صدا کاروں میں جلد ہی شامل ہو جائے گا۔ استاد سلیم اقبال اور حنیف اکثر ہاسٹل آتے جاتے رہتے۔ سچ پوچھیئے تو مجھے موسیقی سے شغف تو تھا مگر مجھے موسیقاروں کے متعلق کچھ علم نہیں تھا۔ سلیم اقبال صاحب کے مقام کا بھی قطعاً اندازہ نہیں تھا۔ میں نیو ہاسٹل میں رہتا تھا۔ ایک دن حنیف ہارمونیم لے کر آیا اور وہیں کمرے میں چھوڑ گیا۔ سلیم صاحب آتے تو وہ ہارمونیم بجاتے اور کوئی غزل چھیڑ دیتے کہ طبیعت خوش ہو جاتی۔ حنیف بھی غزلیں سناتا تھا۔ یہ محفل ہفتے میں ایک دو بار ضرور برپا ہوتی۔ یوں سلیم اقبال کے فن کی عظمت مجھ پر آشکار ہوئی۔ انھوں نے متعدد شہرہ آفاق نغموں کی دھنیں ترتیب دی ہیں جو امر ہو چکی ہیں۔ صرف ایک گانا "دیساں دا راجا میرے بابل دا پیارا" کا ذکر ہی کافی ہے جو برصغیر کی شادیوں میں آج بھی گایا جاتا ہے۔
ایک دن شام کو سلیم صاحب، احمد فراز کی ایک غزل کو موسیقی کی لہروں میں پرو رہے تھے کہ لائل پور سے میرا دیرینہ دوست خواجہ ظفر کمرے میں آ گیا۔ وہ دلچسپ انسان تھا۔ آج کل امریکا میں رہ رہا ہے۔ وہ ہر محفل کی جان ہوا کرتا تھا۔ وہ خواجہ نہیں تھا، وہ خواجہ کیسے بنا، یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے، جسے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔ ظفر بھی میوزک لور تھا، وہ سنگاپور سے پورا آرکسٹرا خرید کر لایا تھا۔ لائلپور میں اپنے بڑے بھائی کے شوروم کے اوپر ایک کمرے میں وہ تمام آلات موسیقی سجا کر رکھے ہوتے تھے۔
ہفتے میں ایک دو بار لائل پور میں اسی کمرے میں موسیقی سے لطف اٹھایا کرتا رہتا تھا۔ خواجہ کے بڑے بھائی اس شوق سے سخت نالاں تھے۔ لڑکپن اور جوانی میں ہر کوئی عظیم گلو کار بننا چاہتا ہے، پھر یہ شوق، فکر معاش اور نوکریوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ ظفر نے کمرے میں آتے ہی سلیم اقبال صاحب کو اتنے پر مزاح طریقے سے اسلام علیکم کہا کہ انھوں نے بے اختیار ہنسنا شروع کر دیا۔ یہ حادثاتی ملاقات باہمی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ خواجہ ظفر نے احمد فراز کی غزل گائی اور خوب گائی۔ اس کے بعد وہ بھی سلیم صاحب کا شاگرد بن گیا۔ عجیب دور تھا۔ میڈیکل کی تعلیم کے ساتھ ساتھ موسیقی کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ مگر پھر مقابلے کا امتحان اور افسری کا ایسا جنون سر پر سوار ہوا کہ وہ تمام محفلیں ختم ہوگئیں۔
موسیقار سلیم اقبال کے ساتھ محفل سجانے اور گیت سنگیت کا یہ سلسلہ تقریباً دو ڈھائی سال جاری رہا، یہیں سے پتہ چلا کہ بڑے آدمی کتنی سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا، رہن سہن حد درجہ سادہ تھا۔ یہ وقت تھا جب وہ اپنے عہد زوال کے آغاز میں تھے۔ یہ دورانیہ تکلیف دہ تھا۔ مگر سلیم صاحب نے بے سرو سامانی کا عہد بڑے صبر سے کاٹا۔ سلیم صاحب مجھے اکثر ریڈیو پاکستان لاہور لے جاتے۔
وہاں ہفتے میں ایک پروگرام یا شاید دو پروگرام ہوتے تھے اور وہی ان کا معاشی ذریعہ تھا۔ ہم گھنٹوں، ریڈیو لاہور کی کنٹین میں بیٹھے رہتے۔ وہاں مختلف موسیقاروں، صدا کاروں اور اہل فن سے ملاقاتیں ہوتی رہتیں۔ غلام علی سے میری پہلی نشست ریڈیو لاہور کی کنٹین میں ہی ہوئی تھی۔ استاد جی نے بڑے بے تکلفانہ انداز سے غلام علی کو کہا، کچھ سناؤ۔ غلام علی نے کھانے کی میز پر انگلیوں سے طبلہ بجانا شروع کر دیا اور اپنا مشہور پنجابی شاہکار سنانا شروع کردیا۔ " میرے شوق دا نئی اعتبار تینو"۔ مجھے یہ چند لمحے بلکہ چند منٹ آج تک یاد ہیں۔ غلام علی جیسا عظیم فنکار بھی انتہائی سادہ طبیعت ہے۔ موسیقار سلیم صاحب کو ریڈیو لاہور میں توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
ریڈیو لاہور اہل علم وفن کا گہوارہ تھا۔ وہ کنٹین آج بھی میرے ذہن کے کسی گوشے میں خاموشی سے موجود ہے۔ کبھی کبھی تنہائی میں میرے ذہن میں جاوداں ہو جاتی ہے۔ سلیم اقبال شاہدرہ کے نزدیک ایک سادہ سی کالونی میں رہتے تھے۔ کئی بار انھیں موٹر سائیکل پر گھر چھوڑ کر آیا ہوں۔ یاد پڑتا ہے کہ ان کا گھر کچھ کچا اور کچھ پکا تھا۔ گھر کی حالت دیکھ کر سلیم اقبال صاحب کے معاملات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا تھا۔ صرف یہ عرض کروں گا کہ وہ عظیم موسیقار، مکمل بے اعتنائی کا شکار رہا اور انھیں کبھی حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہو سکی۔ سلیم صاحب، موسیقی کی ٹیوشن بھی دیتے تھے مگر ان کے شاگردوں کی تعداد محدود تھی۔ دھندلا سا یاد ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب حنیف رامے صاحب کی صاحبزادی بھی ان کی شاگردہ تھیں۔ اس لڑکی نے ٹی وی پر چند اچھے گانے گائے لیکن پھر زندگی کی بھیڑ میں کہیں غائب ہوگئی۔
قصے تو اتنے ہیں کہ ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ دراصل آج سے پینتیس چالیس سال پہلے کا لاہور بالکل مختلف تھا۔ آبادی بھی کم لہٰذا ٹریفک بھی کم تھی۔ لوگوں میں مروت زیادہ تھی۔ دراصل فنکار، ایک آزاد فضا میں ہی سانس لے سکتے ہیں۔
اچھی شاعری، اچھی موسیقی اور اچھی فلمیں صرف ایک زرخیز زمین ہی سے نمو پا سکتی ہے۔ ذمے داری سے عرض کر سکتا ہوں کہ اس وقت ہم شدت پسندی کی گرفت سے سیکڑوں نوری میل دور تھے۔ شاید آج کا لاہور، پرانے لاہور سے کسی قسم کا میل نہیں کھاتا۔ آج جب کوئی ترقی کی بات کرتا ہے تو شاید اس کی نظر میں کشادہ سڑکیں، اوور ہیڈ بریجز، انڈر پاس بنانا ہی ترقی کی نشانی ہے۔ لیکن شہر صرف اور صرف اہل ہنر کی بدولت سانس لیتے ہیں۔ جو بہر حال اب مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ لاہور میں لوہے، اینٹ پتھر کے لحاظ سے ترقی ضرور ہوئی ہے۔ مگر علمی وفکری اور کلچرل زوال حد درجے زیادہ ہے۔
میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب لاہور کالجوں، باغات، شاعروں، ادیبوں اور میلوں کا شہر کے طور پر ابھی زندہ تھا، ثقافت اور ثقافتی سرگرمیاں ابھی شدت پسندی کی دسترس سے باہر تھیں۔ خواجہ خورشید انور، فیروز نظامی جیسے موسیقار موجود تھے۔ سلیم اقبال کے ساتھ گیت و سنگیت کے دو ڈھائی سال کا وہ وقت میرے لیے انتہائی قیمتی فکری اثاثہ ہے جو میں نے ذہنی طور پر محفوظ رکھا ہے، اسے ضایع نہیں ہونے دیا۔ آج نہ سلیم اقبال ہے، نہ ہی حنیف نظر آتا ہے اور ظلم یہ ہے کہ پرانا لاہور بھی غائب ہو چکا ہے۔ قدیم لاہور بہر حال میرے وجود میں آج بھی زندہ ہے اور مرتے دم تک رہے گا۔ مجھے جدید لاہور میں شدید ذہنی آلودگی کا احساس ہوتا ہے، ہر جانب فکری بنجر پن بھرپور طریقے سے محسوس ہوتا ہے!