محمود شام ملک کے نامور صحافی، ایڈیٹر، کالم نگار، شاعر ہیں۔ میری ان سے شناسائی نہیں ہے، فون پر ایک بار بات ہوئی اور وہ بھی انتہائی خوبصورت خود نوشت لکھنے پر۔ ان کی خود نوشت برادرم عبدالستار عاصم نے چھاپی ہے۔ جو ایک کتاب دوست ناشر ہے۔ شائستگی اور رواداری کی بھرپور مثال۔ محمود شام کی کتاب "شام بخیر" سے اندازہ ہوا، کہ مصنف نے ملک کے سیاسی اور سماجی سفر کو تاریخ میں ڈھلتے دیکھا ہے اور کسی تصنع کے بغیر سادہ الفاظ میں انھیں تحریر کر ڈالا ہے۔ انھوں نے اہم ترین سیاسی معاملات کو جتنا قریب سے دیکھا ہے، یہ موقع شاید کسی دوسرے پاکستانی صحافی کے نصیب میں نہیں آیا۔ انھوں نے جو دیکھا، اسے ایمانداری سے لکھ ڈالا۔ بغیر کسی دیر کے، شام بخیر، سے چند حوالہ جات پیش کرتا ہوں۔
مشرقی پاکستان۔ فوجی کارروائی سے پہلے اور بعد: "وہ لوگ کون تھے جو داؤد کے طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے کے بجائے داؤد کے مزدوروں کو قتل کرنے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آخر چندر گھونا پیپر مل کے ایک محنت کش سلیمان کا اس کے سوا کیا قصور تھا کہ وہ لائل پور کا رہنے والا تھا۔ میں نے ایک مہاجر کیمپ میں اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں، اس کی نوجوان بیٹی، اس کی ستم رسیدہ بیوی کی پھٹی پھٹی آنکھیں دیکھی ہیں۔
سلیمان تو اپنی یونین کا بھی سرگرم رکن تھا۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد میں ہمیشہ آگے آگے رہتا تھا۔ ایک سلیمان نہیں، ہزاروں سلیمانوں کو نسلی امتیاز کی بھینٹ چڑھانے والے کون لوگ تھے۔ انھیں کس نے اپنے مظلوم بھائیوں کے خون کا ذائقہ چکھایا تھا۔ ایک دو جگہ نہیں پورے مشرق پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا تھا۔ ان پڑھ اورمزدور بنگالیوں کو مزدور غیر بنگالیوں سے لڑایا جا رہا تھا تاکہ امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو۔ فوج مداخلت کرے، طاقت استعمال ہو، عوامی جمہوریت یا عوامی حقوق کے حصول کا سورج طلوع نہ ہو سکے۔
اسلامی سربراہ کانفرنس: "اسلامی سربراہ کانفرنس ایک تاریخ اجتماع تھا۔ نہ ہی ایسے عظیم مسلم سربراہ بعد میں آئے نہ ہی ان کی ایسی محفل کہیں سجی۔ مسلمان مملکتوں کے اس اتحاد سے بھارت، اسرائیل، روس، امریکا کو سخت سیاسی، سفارتی اور اقتصادی تشویش ہوئی ہے۔ عربوں کو اپنے تیل کی دولت بطور ہتھیار استعمال کرنے کا ادراک حاصل ہوتا ہے۔ پھر مسلم دنیا کی بدقسمتی دیکھیے کہ اس کانفرنس کے یہ درخشاں ستارے، یہ چراغ ایک ایک کرکے بجھا دیے گئے۔
25 مارچ 1975 کو شاہ فیصل کو ان کے اپنے بھتیجے نے قتل کر دیا۔ 15 اگست 1975 کو شیخ مجیب الرحمن کو ان کے فوجی افسروں نے، پھر سادات کو ان کے گارڈز نے، ذوالفقار علی بھٹو جو اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین تھے، جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کے دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں سے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پہلے منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔ پھر قتل کے ایک مقدمے میں ملوث کرکے 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی۔ 2004 میں یاسر عرفات کی موت بھی پراسرار حالات میں ہوئی۔ لیبیا کے انقلابی لیڈر معمر قذافی کو 20 اکتوبر 2011میں انتہائی ظالمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔
چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک: "اس سے پہلے صدر پرویز مشرف اور بھارت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کے درمیان کشمیر پر ایک معاہدہ طے ہو چکا تھا، جس پر دستخط کرنے کے لیے من موہن سنگھ کو 2007 میں ہی پاکستان آنا تھا۔ اس سمجھوتے کے مطابق آیندہ 15 سال کے لیے مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوج اور آزاد کشمیر سے پاکستانی فوج کو نکل جانا تھا۔ دونوں کشمیروں کے درمیان آمدورفت شروع ہو جاتی۔ 15 سال کے اس تجربے کے بعد کشمیری طے کرتے کہ وہ کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔
بیگم بھٹو کی آرزوئیں: بیگم نصرت بھٹو بہت اداس اور ملول نظر آ رہی ہیں۔ انھیں کوئی رخصت کرنے بھی نہیں آیا ہے۔ فلائٹ میں ابھی کافی دیر ہے۔ میں تو ان لمحات کو غنیمت جان رہا ہوں اور کچھ سننا چاہتا ہوں۔ دماغ میں سنبھال کر رکھنا چاہتا ہوں۔
وہ کہہ رہی ہیں: "میں صرف اپنے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ اپنے المیوں اور سانحوں کے ساتھ ہی میں نے اکیلے زندگی بسر کی ہے۔ ایم آر ڈی والوں کو تو اس اذیت اور کرب کا احساس بھی نہیں ہو سکتا جن سے ہم گزرے ہیں۔ مجھ میں اب وہ طاقت نہیں ہے۔ جس کاتقاضا سیاست کرتی ہے۔ یہ نہیں ہے کہ میں سیاست کو پسند نہیں کرتی۔ سیاست سے مجھے بہت انس ہے۔ لیکن اب مجھ میں وہ توانائی نہیں ہے۔
میں تنہا زندگی گزارتی رہی ہوں۔ میری بہن میری دیکھ بھال کرتی تھی۔ میری جب صحت بحال ہوگئی تو وہ واپس چلی گئی تھی۔ بعد میں دوسری بہن یا عم زاد میرے ساتھ رہیں۔ اب صرف چھ ماہ کے بعد طبی معائنے کی ضرورت ہے۔ اب میں کچھ طاقت محسوس کر رہی ہوں۔ میں شام(سیریا) میں اپنے بیٹے اور اس کی بیٹی کو دیکھنے جاتی ہوں۔ "
بھٹو۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر: اب بھٹو صاحب چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں۔ صدر پاکستان بھی۔ اسٹیبلشمنٹ کیوں مجبور ہوئی ہے۔ اس کے لیے اب حکومت سنبھالے رکھنا مشکل ہے۔ بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھ گیا ہے۔ فوج میں بھی سخت بے دلی ہے۔ جنرل یحییٰ خان تو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ اس لیے یہ تبدیلی ناگزیر ہے۔ اب قوم کی مایوسی کوئی سویلین لیڈر ہی دور کر سکتا ہے۔
آگرہ مذاکرات: آگرہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہوتے نہ ہو سکے۔ پاکستان اس کی ذمے داری ایل کے ایڈوانی کے سخت گیر رویے پر ڈالتا ہے۔ اور دوسرے سشماسوراج کے دور درشن کے انٹرویو پر۔ جس میں متنازعہ مسئلہ بھی اٹھایا گیا۔ حالانکہ یہ ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد حالات میں کشیدگی آگئی۔ دونوں طرف اول دوئم انعامات طے کر لیے گئے تھے۔ پروگرام یہ تھا کہ بھارت کے انعام یافتگان کو پاکستان میں انعامات دیے جائیں۔ اور پاکستان کے انعام یافتگان کو بھارت میں۔
شام بخیر، محض ایک کتاب نہیں، یہ پاکستان کی سیاست کی ایک بے لاگ سرجری ہے۔ جو نشتر سے نہیں بلکہ قلم سے کی گئی ہے۔ محمود شام نے قلم کا قرض ادا کر دیا۔ مگر آج کی دگر گوں سیاسی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے بھی سرجری کی ضرورت ہے۔ مگر افسوس، ہمارے پاس بلند قامت سیاسی سرجن مفقود ہیں!