ہمیں حددرجہ احتیاط اور ضبط سے کام لینا چاہیے۔ سیاسی شخصیات ہوں یا ریاستی اداروں کے لوگ۔ سب کے سب کو اپنی قانونی اور آئینی حدود کے مطابق رک جانے کی اشد ضرورت ہے۔ معاملہ کیا ہے؟ ملک کی ایک سیاسی پاپولر جماعت کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں لکھ رہا، ہر امر اور ہر عمل بلکہ ردعمل سب کے سامنے ہے۔
عوامی پذیرائی کے کامیاب عنصر کو پس پشت ڈالنا قطعاً دانش مندی نہیں ہے۔ عسکری اداروں کی آج بھی عوام کے دلوں میں عزت اور احترام ہے۔ انھوں نے پاکستان کی سالمیت کے تحفظ کے لیے اور دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ شہادتوں کے چراغ آج بھی جگمگا رہے ہیں۔ مجھے عملی زندگی میں ریاستی اداروں کے ساتھ حددرجہ نزدیک سے کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں خود، ایک فوجی کالج میں پانچ برس پڑھتا رہا ہوں۔
کیڈٹ کالج حسن ابدال کا ذکر کر رہا ہوں۔ جس نے افواج پاکستان میں ان گنت کامیاب افسر پیدا کیے ہیں۔ فوج کی سوچ اور ان کے نظم وضبط کو بھی بخوبی سمجھتا ہوں۔ عرض کرتا چلوں کہ ہمارے عسکری ادارے، دنیا کے بہترین اداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ہمارا ایٹمی پروگرام، جو کہ دفاعی اداروں کی مرہون منت بنا ہے۔ صرف ملک کے لیے نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لیے قابل فخر ہے۔ سب کچھ دل سے لکھ رہا ہوں۔
سیاست کے میدان میں تحریک انصاف، ملک کی ایک مقبول سیاسی جماعت ہے۔ کسی بھی الیکشن میں اسے زیر کرنا آسان نظر نہیں آ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی مخالف سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اس کا مکمل ادراک ہو چکا ہے۔ یہ سیاستدان بھی ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی چھترچھاؤں میں الیکشن جیت کر تخت پر براجمان ہوتے آئے ہیں۔
ایسے نازک موضوعات پر حددرجہ لکھا جا چکا ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ وہ سیاسی لوگ جو تیس پینتیس برس سے ملک کی قسمت کے مالک بن چکے تھے، انھیں احساس ہوا ہے کہ ان کی ٹانگیں تو نمک کی تھیں جو عوامی ردعمل کے سیلاب میں گھل چکی ہیں۔ لہٰذا وہ ہر صورت میں کشیدگی کی فضا کو بڑھاوا دینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ اسی میں ان کی سیاسی بقاء ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کو سمجھتا ہر کوئی ہے۔ مگر اس پر بات کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔
ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت، ان سیاسی موقع پرستوں نے ملک اور عوام کے مفاد کو زک پہنچانے کی کوشش کی ہے اور ساتھ ساتھ حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی کوشش بھی کی ہے۔ موجودہ حالات میں پرانے سیاستدانوں کی حکمت عملی بہرحال کامیاب نہیں ہو رہی۔ کیونکہ عوام ان کی دوعملی باتوں کو سمجھ چکے ہیں۔ وہ کسی صورت میں اپنی سیاسی وابستگی بدلنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ معاملہ اب ضد کی حد تک بڑھ چکا ہے۔
یہ سیاسی جنگ ہرگز ہرگز معمولی نہیں ہے۔ اس کی لاتعداد جہتیں ہیں۔ اس میں ہمارے ملک کے دشمن عناصر اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے بھرپور طریقے سے شامل ہیں۔ یہ سیاسی بے یقینی اب ملک کے سسٹم کو غیرفعال کر رہی ہے۔ معاشی ترقی تو دور کی بات، کوئی بھی سرمایہ دار، اپنا سرمایہ، ملک میں رکھنے اور لگانے پر آمادہ نہیں ہے۔ پاکستان کے امیر لوگ، اپنا سرمایہ بڑے سکون سے باہر لے جا چکے ہیں، سرمائے کا یہ بالکل فطری رویہ ہے۔
دولت سب سے پہلے محفوظ ٹھکانے تلاش کرتی ہے۔ مگر اب عوامی سطح پر ناکام سیاست دان ایک خطرناک کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں اور اس میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ یہ کھیل کیا ہے؟ ریاستی اداروں کو عوامی طاقت سے لڑانے کا کھیل۔ ایک بات سمجھ لیجیے، سیاست دانوں کے پیچیدہ ترین ذہن کو ریاستی اداروں میں قابل ترین افسر بھی نہیں سمجھ سکتے۔
سیاست دان، اپنے چہروں پر حب الوطنی کا غلاف چڑھا کر اداروں میں کامیاب رسائی ضرور حاصل کر لیتے ہیں۔ دیکھا جائے تو کوئی بھی ادارہ دوسرے ادارے پر حاوی نہیں ہو سکتا۔ فوج کا کام کوئی دوسرا ادارہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی کر پایا ہے۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے مگر انتشار کو بڑھاوا دینے کا کام اب اتنا زور پکڑ گیا ہے کہ اس کو سمجھنا اور درجہ حرارت کو کم کرنا ملکی سلامتی کے لیے لازم ہو چکا ہے اور یہ ہی حب الوطنی کا تقاضا ہے۔
مثال دینا چاہتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہو کہ ہو کیا رہا ہے اور دکھایا کیا جا رہا ہے۔ آئی پی پی معاہدوں کی شرائط حددرجہ سخت ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ انھیں منظور کس نے کیا۔ ان پر منتخب ایوانوں میں کھلی بحث کیوں نہیں ہوئی تھی۔ صاحبانِ زیست! یہ معاہدے کسی فوجی حکمران نے نہیں بلکہ سیاسی، جمہوری حکومتوں نے Approve فرمائے تھے۔ اس حوالے سے آپ جو مرضی کہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ گردشی قرضوں کا سبب یہی ہے۔ یہی سیاست دان میرٹ، شفافیت اور جمہوریت کا ورد کر رہے ہیں۔ دوسری طرف عسکری اداروں کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کا کھیل کھیلنے میں مصروفِ ہیں۔
ان کے گماشتے دانشور آپ کو دفاعی بجٹ کی طرف لے جاتے ہیں۔ کبھی جائز مراعات کو ناجائز ثابت کرنے لگتے ہیں۔ کبھی فرماتے ہیں کہ ملک اقتصادی طور پر دفاعی اخراجات برداشت نہیں کر سکتا۔ حالانکہ یہ پروپیگنڈا حددرجہ منفی ہے۔ غیرجانبدارانہ تحقیق کے مطابق حددرجہ محدود وسائل میں ہمارے دفاعی ادارے، اس قدر عمدہ کام کر رہے ہیں کہ دنیا حیران وپریشان ہے۔ ذرا غور تو فرمایئے کہ چند سیاسی رہزن ہر طریقے سے دولت کما رہے ہیں لیکن انتہائی ہوشیاری اور مکاری سے ملکی دفاع کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ اس کھیل کو اب ہر کوئی پہچان چکا ہے۔
سیاسی انتشار کو بڑھانا، اس کوسوشل میڈیا اور ذرایع ابلاغ کے دیگر پلیٹ فارمز پر ہوا دینا، اسی طبقے کے ذاتی مفاد میں ہے۔ ان کی اولادیں، ان کے کاروبار، دولت، سماجی تعلقات اور محلات تو ٹورانٹو، میسی ساگا، مانٹریال، وینکور، نیویارک، ہوسٹن، لندن، دبئی اور پیرس میں ہیں۔
خدا نخواستہ ملک پر کوئی برا وقت آیا تو یہ سب کچھ سمیٹ کر مغربی ممالک میں بسیرا کر لیں گے۔ مگر ہمارے ادارے اور عوام تو ہر حال میں یہیں سانس لیں گے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کون سی حکمت عملی اپنائی جائے کہ داخلی استحکام کی طرف قدم بڑھایا جا سکے۔ اول، ہمارے پاس آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جو مختلف اسٹیک ہولڈرز سے بیک چینلز سے کامیاب بات چیت اور گفتگو کر سکتے ہیں۔ کوشش ہونی چاہیے کہ یہ سنجیدہ افراد، ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں۔ موجودہ حالات میں اتنا مشکل کام، صرف ایک یا دو افراد سرانجام نہیں دے سکتے۔
ان میں سابقہ آرمی سربراہان، غیرجانبدار سیاست دان، غیرمتعصب ریٹائر ججز بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کوئی قانونی فورم نہیں ہوگا۔ یہ چند افراد، اس وقت دونوں فریقین سے کامیابی سے بات چیت کریں اور استقامت سے معاملات کو ٹھنڈا کریں۔ گزارش ہے کہ اس امن کے پیغام کی سب سے زیادہ مخالفت، فارم 47 پر منتخب ہونے والے افراد کریں گے۔ کیونکہ اگر داخلی استحکام ہوتا ہے اور معاملات حل ہوتے ہیں تو یہ چند سیاسی جماعتوں کی سیاسی شکست ہے۔
یاد رکھئے کہ اس وقت معاملہ فہمی کی ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کو بھی اپنے اندر سیاسی لچک پیدا کرنی چاہیے۔ اور ان حلقوں سے بات چیت کرنی چاہیے جو نتائج دے سکتے ہیں، غیر متعلق لوگوں سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ صرف وقت کا ضیاع ہوگا۔ یہ مذاکرات، بیرون ملک ہوں تو قدرے بہتر ہے۔ یہ بھی عرض کروں گا کہ میڈیا کے شور شرابے سے مکمل دور رہنا ہی کامیابی کی دلیل ہو سکتی ہے۔ فیصلہ یہ بھی کرنا ہوگا کہ ابتداء کون کرے گا۔ تاریخی تناظر میں عرض کروں گا۔ مذاکرات کی پہل ہمیشہ طاقتور اورمضبوط فریق کرتا ہے۔
معلوم ہے کہ میرے ان الفاظ کو مختلف بلکہ متضاد معنی پہنائے جائیں گے۔ مگر ملکی استحکام اور معاشی طاقت کو واپس لانا سب سے اہم ہے۔ یہ ایک نیک اور اشد ضروری معاملہ ہے۔ اسے ایک لمحہ کے لیے بھی موقوف نہیں کرنا چاہیے۔ یاد رکھیے کہ ہر تلخی کا حل صرف اور صرف حکمت میں ہی پنہاں ہوتا ہے۔
سکون سے سوچیے، ملک کی خاطر۔ ان پچیس کروڑ شہریوں کی خاطر۔ سیاسی قوتیں اور مضبوط ادارے بامقصد مذاکرات کی طرف قدم بڑھائیں۔ ملک سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ملک کی سالمیت، ہماری عسکری طاقت میں پوشیدہ ہے۔ عوامی اور ادارہ جاتی طاقت ہمیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتی ہے۔ مگر سب کو معلوم ہے کہ ان مذاکرات کی مخالفت کون سا فریق کرے گا؟