زندگی کو جاننے کی کوشش کیجیے۔ گو خودکو پہچاننا حد درجہ مشکل کام ہے۔ مگر ناممکن نہیں ہے۔ پہچانئے، خود سے شروع کیجیے۔ ہمارے زندہ رہنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا صرف اپنی ذات، خاندان، عزیز واقارب کے لیے وجود میں لائے گئے ہیں یا معاملہ کچھ اور ہے۔ باباجی، بڑے آرام سے بیٹھے یہ باتیں کرتے جا رہے تھے۔ لاہور شہر سے تھوڑا سا دور ایک قصبے میں کریانے کی دکان کرتے ہیں۔
میرا ان سے تعلق کوئی پندرہ برس سے ہے۔ ملتان جا رہا تھا کہ راستے میں پیاس لگی۔ ایک آبادی کے قریب رکا، سامنے چھوٹی سی دکان تھی۔ پانی کی بوتل مانگی۔ تو دکاندار کہنے لگا کہ وہ بیکار اشیاء نہیں بیچتا لہٰذا پانی کی بوتلیں دکان پر نہیں رکھتا۔ پھر اس نے مشورہ دیا کہ سامنے ہینڈ پمپ ہے۔ اس کا پانی حد درجہ صاف اور ٹھنڈا ہے، وہ پی لو، بہتر ہوگا۔
عجیب سا لگا، خیر میں نے ہینڈ پمپ کا پانی پیا، پانی ٹھنڈا، شفاف اور فرحت بخش تھا۔ دکاندار کا شکریہ ادا کیا تو وہ کہنے لگا، برخورادار! سادہ زندگی کی طرف آؤ۔ یہ حد درجہ دیرپا اور صحت مندانہ طرز زندگی ہے۔ میں نے سنی ان سنی کی، گاڑی میں آیا اور دوبارہ سفر شروع کر دیا۔ ملتان تین چار دن کا قیام تھا۔ ایک رات سونے سے پہلے، اس دکاندار کی بات یاد آئی تو دیر تک سوچتا رہا۔ دل نے گواہی دی کہ یہ اجنبی شخص بالکل ٹھیک بات کر رہا تھا۔ لاہور واپس آتے ہوئے، اس "مرد عجیب" سے دوبارہ ملنے کو دل چاہا۔ برلب سڑک قصبے ہے، گاڑی روکی اور سیدھا دکان پر گیا، وہ اپنی ہٹی پر موجود تھے۔ پوچھنے لگے۔ خیر تو ہے، پانی پینے آئے ہو؟ میں نے کہا کہ صرف آپ سے ملنے آیا ہوں۔
انھوں نے دکان کے اندر ہی ایک موڑھے پر بٹھا لیا۔ تعارف ہوا، انھوں نے بتایا کہ بیس برس سے منیاری کی دکان کر رہا ہوں۔ صبح فجر کے بعد، دکان کھولتا ہوں، مغرب کے وقت بند کر دیتا ہوں۔ اس کے بعد، کتابیں پڑھتا ہوں۔ ساتھ ہی گھر ہے۔ تین بچے ہیں۔ سب کی شادیاں کر دی ہیں۔ زندگی بھر میری یہی روٹین رہی۔ سادہ سی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے سوال کیا، کتابیں کون سی پڑھتے ہیں۔ بابا جی کہنے لگے، انگریزی نہیں پڑھ سکتا۔
لہٰذا لاہور میں ایک کتاب فروش سے معاہدہ کر رکھا ہے کہ مجھے انگریزی، روسی، فرانسیسی اور وسطی امریکا کے لکھاریوں کی اردو ترجمہ شدہ کتابیں بھیجتا رہتا ہے۔ اب تو گھر میں کتابوں کے انبار ہیں، بابا جی نے دنیا کے نامور رائٹرز کے نام اور کتابیں گنوا دیں۔ انھوں نے سیکڑوں کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ حد درجہ وسیع مطالعہ انسان تھے۔ بابا جی جیسے سادہ نظر آنے والاشخص، اتنا صاحب مطالعہ ہوگا، میرے لیے یہ باعث حیرت تھا۔ پھر میں بابا جی کے پاس اکثر چلا جاتا، گھنٹوں کتابوں پر بات ہوتی تھی۔ مگر آہستہ آہستہ، مضمون بدلنے لگا۔ اب بابا جی سے زندگی پر سنجیدہ مکالمہ شروع ہوگیا۔
باباجی کہتے تھے کہ انسا ن کے اپنے بس میں ہے کہ زندگی کو آسان بنا لے یا اسے حد درجہ مشکل میں ڈال دے، اگر تین اوصاف ہوں تو انسان کا ہر کام رحمت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پہلی بات یہ کہ حد درجہ سادگی کو اپنا لو، میں سمجھ نہیں پایا۔ سوال کیا کہ اس سے کیا مراد ہے؟ مسکرا کر کہا کہ آج گرمی بہت زیادہ ہے، کیا پیو گے۔
کوئی شربت پیا جا سکتا ہے، میں بولا۔ مگر بابا جی نے شربت منگوانے سے انکار کر دیا۔ تخم بالنگا ملا سادہ پانی منگواتے ہیں۔ بابا جی نے پنساری کی دکان سے خالص تخم بالنگا منگوایا، مٹی کے دو لبالب بھرے کٹورے جن پانی بھی ہینڈ پمپ کا تھا۔ یقین فرمایئے۔ مٹی کے کٹوروں میں یہ دیسی اجزاء پینے سے روح تک ٹھنڈ پہنچ گئی۔ بابا جی بتانے لگے، کہ لوگ مختلف قسم کے مشروبات استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ مضر صحت بھی ہیں اور مہنگے بھی۔ دراصل لوگ، اصل کے بجائے نقل کی طرف مائل ہو چکے ہیں۔ آپ لوگوں سے تخم بالنگا کا ذکر کریں۔ تو نوے فیصد کو معلوم نہیں ہوگا کہ یہ کس بلا کا نام ہے۔
بابا جی کہتے تھے کہ سب سے پہلے اپنی غذا کو سادہ کروں۔ روٹی، چاول، گوشت کم سے کم کھاؤ۔ سبزی اور دالیں زیادہ استعمال کروں۔ عام پھل کھاؤ جیسے تربوز، خربوزہ اور اس طرح کے دیگر پھل جو آسانی سے ہر جگہ دستیاب ہیں۔ جو اور مکئی کا آٹا استعمال کریں۔ ویسے میں خود ڈاکٹر ہوں۔ بابا جی جو کہہ رہے تھے، یہ میڈیسن کانچوڑ ہے۔ سادہ غذا، بیماریوں کو نزدیک نہیں آنے دیتی۔ کھانا پکانے کے لیے مٹی کی ہانڈی استعمال کرنی چاہیے اورگیس پر کھانا بالکل نہیں بننا چاہیے۔ لکڑی کو استعمال کرنے والے چولہے گھر میں رکھو۔ جناب، آپ آج اپنا کھانا مٹی کی ہانڈی اور لکڑی کی آگ پر پکائیں تو ذائقہ اتنا بہترہو جائے گا کہ آپ تصور نہیں کر سکتے۔
بابا جی نے نصیحت کی سادہ کپڑے پہنو۔ زندگی آرام دہ ہوجائے گی۔ مجھے جوانی میں کپڑوں کا بہت شوق تھا۔ جہاں بھی جاتا تھا، پینٹ کوٹ اور قمیضیں خریدنے کی کوشش کرتا تھا۔ بابا جی کی، اس بات پر سنجیدگی سے عمل کیا۔ معدو دے چند کپڑوں کے جوڑوں اور چند جوتوں پر قناعت کر لی۔ یقین فرمائیے کہ زندگی بالکل تبدیل ہوگئی۔ ہاں ایک اور بات، غیر ملکی سوٹ اور شرٹیں بالکل ترک کر ڈالیں۔ ضرورت کو سادہ اور صاف ستھرے پن سے زیر کر ڈالا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا کہ کس نے کتنا قیمت لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔
کپڑوں کی سادگی نے پوری زندگی میں سادگی گھول دی۔ میرا ایک انگریز دوست ہمیشہ کہتا ہے کہ پاکستانی جوتے، دنیا کے بہترین جوتے ہیں۔ مگر ہم اپنے ملک کی بنی ہوئی اشیاء کو چھوڑ کر اٹلی اور یورپ میں بنے ہوئے جوتوں کو پہننا فخر سمجھتے ہیں۔ کئی بار دیکھا ہے کہ لوگ، دوستوں کو فخریہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ جناب میں نے تو بالی کے جوتے پہن رکھے ہیں۔
اپنے سوٹ کو مہنگے ترین یورپی برانڈ کا بتانا بھی لازم سمجھتے ہیں۔ میں اس دوڑ سے نکل چکا ہوں اور آسودہ ہوں۔ ہمارے ہاں خواتین کو نت نئے کپڑے، کامدارجوڑے، نئے جوتے خریدنے اور پہننے کا جو خبط ہے، اگر وہ بھی سادہ روش پر آجائیں تو زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔ بہرحال، اس موضوع پر کسی اور کالم میں گزارشات پیش کروں گا۔ ہمارے ہاں، اکثر خواتین کو کہتے سنا ہے کہ وہ ایک جوڑے کو دوبارہ پہننا، مناسب نہیں سمجھتیں۔ یہ ذہنی مفلسی کی انتہا ہے۔ اور اس پر صرف ماتم کیا جا سکتا ہے۔
تیسری بات خاندان اور بچوں کے متعلق تھی۔ کہنے لگے کہ ڈاکٹر، تم اپنی اولاد کو ہر سہولت فراہم کر سکتے ہو۔ مگر ایک چیز نہیں دے سکتے۔ وہ ہے مقدر۔ ہمارے نناوے فیصد والدین اپنی اولاد کو مقدر دینے کے چکر میں اپنے آپ کو بھی برباد کر لیتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی جونکوں میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کا مستقبل بنانے کے لیے ہر جائز و ناجائزحربہ استعمال کرتے ہیں۔ مگر یہ فراموش کر ڈالتے ہیں کہ اولاد کو بنا بنایا مقدر عطا کرنا صرف اور صرف خدا کو زیب دیتا ہے۔
یہ ہمارے بس میں نہیں ہے کہ ہم، والدین کے طور پر انھیں ایک سنہرا مستقبل دے سکیں۔ ہاں! اگر والدین اپنے آپ کو بہت طاقتور گردانتے ہیں اوربچوں کو کوئی اچھا عہدہ یا منصب، لے بھی دیتے ہیں۔ تو قدرت ان کی اولاد میں ایسی ایسی قباحتیں پیدا کر دیتی ہے کہ والدین کا تکبر اور غرور دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ مقدر صرف خدا کی ذات عطا کرتی ہے۔ ہاں اولاد کو بہترین تعلیم اور تربیت سے آراستہ کرنا والدین کا فرض ہے۔ بابا جی کی تین باتیں کم از کم میں نے تو پلے باندھ لی ہیں۔ آپ بھی غور اور عمل کریں، شاید زندگی زیادہ بہتر ہو جائے!