پرسوں رات سونے سے پہلے فون پر آلارم لگایا کہ کل وقت پر اٹھ کر سینٹ کی فنانس کمیٹی کے اجلاس میں جانا تھا۔ اجلاس دو بجے کے قریب تھا۔ ان اجلاسوں سے بڑا کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ خیر آنکھ ساڑھے بارہ بجے کھل گئی۔ تیار ہوکر پارلیمنٹ پہنچ گیا۔ کمیٹی روم گیا تو وہاں اندھیرا۔ نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ حیران ہوا کہ چئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا صاحب نے تو خود اجلاس کا ایجنڈہ بھیج کر کہا تھا آپ نے ضرور آنا ہے۔ اب سب کہاں ہیں۔
خیال آیا کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ہے۔ فورا ایجنڈا نکال کر دیکھا تو پتہ چلا اجلاس تیس اگست کو ہے اور آج انتیس اگست ہے۔
پہلے خود پر شدید غصہ آیا اور پھر ہنسی آئی۔ ہم صحافی لوگ بھی عمر کے کسی حصے میں پہنچ کر خبطی اور مخبوس الحواس ہوجاتے ہیں۔ میں سمجھ رہا تھا آج تیس اگست ہے۔
کافی دیر تک خود کو کوسا۔ موڈ خراب رہا۔ اچانک خیال آیا اب اٹھ تو گیا ہوں۔ پارلیمنٹ پہنچ گیا ہوں۔ یہاں پر ایک شاندار لابییری ہے۔ اس طرف چل پڑا۔ وہاں کبھی ہمارے سندھی دوست حاجی صاحب لابئیرین ہوتے تھے اور کیا کمال کے بندے تھے۔ بہت ملنسار اور انسان دوست۔ عاجزی اور انکساری ان پر بس تھی۔ وہ 2018 میں ریٹائرڈ ہوگئے تھے۔ اج کل گھر پر ہیں۔
ویسے ایسے خوبصورت انسانوں کو ریٹائرڈ نہیں ہونا چاہئے۔ خیر یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ان کے جگہ ان کے ہی ایک اور جوان اور خوبصورت انسان رائو خالد کو لابیرین بنایا گیا ہے۔
ان کی اجازت سے دو گھنٹے لابیری میں گزارے۔ کیا کیا خوبصورت کتابوں سے ملاقات ہوگئی۔ سب سے زیادہ خوشی ابن حنیف صاحب کی کتاب "بھارت" کو دیکھ کر ہوئی، پھر بلونت سنگھ کا ناول چک پیراں کا جسا۔ میں بلونت سنگھ کا بہت بڑا فین ہوں۔ بہت بڑا۔ پنجابی کلچر پر بلونت سے زیادہ خوبصورت کسی نے نہیں لکھا۔ ایسا ایڈیشن برسوں سے ڈھونڈ رہا ہوں۔
خالد مسعود کے پاس ملتان میں اس کے گھر کی لابیری میں چک پیراں کا جسا کا یہ پرانا ایڈییشن دیکھا تو دل کیا مانگ لوں یا چرا لوں۔ پھر ڈر کے مارے چپ رہا کہ خالد مسعود نے پھینٹی نہ بھی لگائی پھر بھی پنجابی اور سرائیکی دونوں زبانوں میں میٹھی میٹھی بے عزتی بہت کرے گا۔ لہذا بلونت سنگھ کے "چک پیراں کے جسا" پر عزت بچانے کو ترجیح دی تھی۔
جب لائبیری سے نکلنے لگا تو دل کیا کسی بڑی کتابوں کی دکان پر جا کر سیلز مین لگا جائے، بہاولپور سنڑل لاببری جیسی اعلی لائیبری میں نوکری ڈھونڈی جائے یا پھر لانگے خان باغ ملتان لائبیری جس کا ذکر اکثر ڈاکٹر انوار احمد کرتے رہتے ہیں لیکن شاید سابق وائس چانسلر عاشق درانی صاحب میرے ڈان ملتان 1996/98 کے دنوں کی رپورٹنگ سے ابھی تک ناراض ہوں اور مجھے ناقابل بھروسہ سمجھ کر میری درخواست ریجیکٹ کر دیں۔۔ یا پھر سب کام چھوڑ کر پرانی کتابوں کی دکان کھولی جائے۔
اب فیصلہ نہیں ہوپارہا ان میں سے کون سا کام کیا جائے اگرچہ میرے دونوں بچوں نے چند برس پہلے ہی کہہ دیا تھا بابا بوڑھے ہو کر پرانی کتابوں کی دکان ہی کھولیں گے۔