کل رات گئے قبلہ جنید کو پنڈی ان کے گھر چھوڑا۔ عموماََ میں کسی اور روڈ سے اسلام آباد لوٹتا ہوں لیکن پتہ نہیں کہ کل رات کیا سوجھی کہ 9th ایونیو کی طرف سے آیا۔
بلیو ایریا فیصل چوک پر سڑک کنارے ایک فیملی کو دیکھا۔ میاں بیوی اور ایک دس بارہ سال کا لڑکا۔ ماں نے ایک بچہ گود میں اٹھایا ہوا تھا۔ رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ میں ان کے قریب سے گاڑی گزار گیا۔ کچھ آگے گیا تو رک سا گیا۔ بعض چیزیں آپ سے غیرارادی طور پر ہوجاتی ہیں۔ گاڑی کا روکنا بھی ان میں سے ایک تھا۔ ورنہ آج کل کون دن ہو یا رات گاڑی روک کر لفٹ کی آفر کرتا ہے اور وہ بھی ان حالات میں۔ میں کبھی لوگوں کو بہت لفٹ دیا کرتا تھا لیکن پھر بدلتے حالات کی وجہ سے اپنے مزاج کے برعکس اس عادت کو مشکل سے ترک کیا تھا۔
خیر اپنی گاڑی ریورس کی۔ قریب جا کر شیشہ نیچے کیا۔ یہ ایک پشتون فیملی تھی۔
پوچھا کہاں جانا ہے؟ وہ بندہ دور چپ بیٹھا رہا۔ میں نے پھر پوچھا۔ تو اس نے وہیں سے بیٹھے بیٹھے کچھ کہا جو مجھے سمجھ نہ آیا۔ اس کا دس بارہ سالہ بیٹا آگے آیا۔ اس سے پوچھا۔
خیر اتنی دیر میں وہ بندہ اٹھ کر آیا۔ تھوڑی بات چیت سے پتہ چلا اس کا سال بھر کا چھوٹا بیٹا بیمار تھا۔ وہ اسے پمز ہسپتال لائے تھے۔ اب واپسی کے لیے ٹیکسی نہیں مل رہی تھی بلکہ کوئی ٹیکسی والا تیار نہیں ہورہا تھا۔
میں نے کہا چلیں میں آپ کو روات چھوڑ آتا ہوں۔ وہ کچھ حیران ہوا اور بولا بہت دور ہے۔ آپ کہاں اس وقت جائو گے۔
میں نے کہا میں کون سا رکشے پر ہوں، گاڑی ہے۔ وہ مڑا اور جا کر اس نے بیوی سے مشورہ کیا۔ واپس آیا اور بولا نہیں آپ کی مہربانی ہم خود چلے جائیں گے۔ میں نے کہا آپ کا بچہ بیمار ہے، دوسرا بچہ نیند سے برا حال ہے۔ بیوی آپ کی فٹ پاتھ پر بچے کو اٹھائے پتہ نہیں کتنی دیر سے بیٹھی ہے۔ یہ اسلام آباد شہر ہے۔ رات کا تین بجنے والا ہے۔ آپ کو ٹیکسی نہیں ملے گی۔
وہ بولا نہیں آپ کا شکریہ۔ بس سمجھیں آپ نے ہمیں روات چھوڑ دیا۔
میں ایک لحمے اسے دیکھ کر سوچتا رہا وہ شاید یقین نہیں کرسکتا تھا کہ رات کے تین بجے گاڑی پر سوار کوئی بندہ اسے روات چھوڑنے جائے گا بغیر کسی وجہ، بغیر کرایہ یا لالچ یا پھر کسی برے مقصد کے لیے؟
میں نے اس کا شک دور کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اس نے اپنے شک کو سہولت پر ترجیح دی یا پھر وہ پٹھان خاندان کسی اجنبی شہر میں کسی اجنبی سے رات گئے ایسا احسان نہیں لینا چاہ رہا تھا جس کا بدلہ وہ شاید کبھی نہ اتار سکے۔
میں نے مایوس ہو کر خود کو گاڑی کے شیشے میں کچھ دیر تک دیکھا کہ آخر اس بندے نے مجھ پر اعتبار کیوں نہیں کیا تھا۔
ڈرنا تو مجھے چاہئے تھا کہ رات گئے ایک اجنبی فیملی کو روات چھوڑنے جارہا تھا اور صبح سویرے سات بجے ایک بہت ضروری کام کی وجہ سے اٹھنا بھی تھا اور ابھی رات کے تین بج رہے تھے۔
میں نے ہمیشہ سوچا ہے اگر مجھے اپنی مادری زبان علاوہ کوئی پاکستانی زبان سیکھنی ہوگی تو پشتو سیکھوں گا۔ (وجہ پھر کبھی سہی)۔ اس لحمے محسوس ہوا مجھے کچھ پشتو آتی ہوتی تو وہ مجھ پر اعتبار کرتا۔
میں نے افسردہ ہو کر گاڑی آگے بڑھا دی۔ گھر پہنچ کر سونے تک وہی فیملی سر پر سوار رہی کہ پتہ نہیں کب روات پہنچے ہوں گے یا ابھی بھی سڑک کنارے ایک نڈھال باپ، نیند سے بے حال اس کا دس سالہ بچہ اور تھکی ہاری ماں فٹ پاتھ پر اپنے ایک سالہ بیمار بچے کو کندھوں ساتھ لگا کر بیٹھی کسی ٹیکسی کی منتظر ہوگی۔
مجھے ان پر غصہ بھی آیا کہ اگر اللہ نے ان کی دعا سن کر مجھے اس راستے سے بھیج بھی دیا تھا تو بھی وہ سہولت شک کی نظر ہوگئی تھی۔ انہوں نے سہولت پر شک، تکلیف اور دکھ کو ترجیح دی تھی۔