جب کبھی میں اسلام آباد سے باہر اپنے گائوں بائی روڈ جائوں، ملتان یا لاہور تو عموما میں تین چار بکس ساتھ رکھ لیتا ہوں کہ رات کو کچھ نہ کچھ پڑھ لوں گا یا کوئی یار دوست ساتھ ڈرائیونگ کے لیے (رانا محمد اشرف یا افضل صاحب) تو دوران سفر پڑھتا رہتا ہوں۔
اس دفعہ نہ رانا اشرف ساتھ تھے نہ افضل صاحب۔ میں نے اسلام آباد سے رحیم یار خان آنے جانے کا دو ہزار کلومیٹر کا طویل سفر کرنا تھا۔ اپنے دوست کیپٹن زاہد اسلم کے بائیس سالہ بیٹے کی ناگہانی وفات پر ویک اینڈ پر اسلام آباد سے رحیم یار خان جانا تھا تو میں نے اپنے مزاج کے برعکس صرف یہی ایک کتاب اپنے ساتھ رکھ لی۔ ملتان سے اپنے دوست جمشید رضوانی کو ساتھ لیا اور رحیم یار خان چلے گئے۔
یہ غیرمعمولی کتاب 1992 میں چھپی تھی بلکہ اس درانی فیملی نے خود چھاپی تھی جو سفیر صاحب کی مرحوم بیگم صاحبہ نے خود لکھی تھی اور لکھنے کے کچھ دنوں بعد اچانک فوت ہوگئیں۔ زندہ رہتیں تو شاید کچھ اور شاہکار لکھتیں۔
یہ کتاب پچھلے ہفتے میں نے اولڈ بکس دکان سے خریدی تھی۔ اس غیرمعروف کتاب کی قیمت اگرچہ مجھے کچھ زیادہ لگی لیکن پتہ نہیں کیا سوچا کہ یہ کتاب خریدنی چاہیے لہذا میں نے قیمت پر بحث نہیں کی۔
اس کتاب نے مجھے مجبور کیا کہ میں اسے خریدوں اور قیمت پر بحث نہ کروں چاہے یہ کسی غیر معروف مصنفہ کی آپ بیتی ہے۔
میرا ماننا ہے اچھی چیز مہنگی ہوتی ہے۔ اگرچہ وقتی طور پر مہنگی چیز کچھ ہرٹ کرتی ہے لیکن کچھ دن بعد آپ قیمت بھول جاتے ہیں اور اس چیز سے لانگ ٹرم لطف اندوز ہوتے ہیں۔
میں نے ان پاکستانی سفیر سلطان عزیز درانی کا نام نہیں سنا تھا۔
میں نے کتاب خرید کر گھر پہنچ کر اسے بیڈ سائیڈ پر رکھ دی تھی کہ کسی وقت اسے پڑھیں گے۔ رات کو ویسے ہی اسے اٹھایا تھا کہ دیکھوں تو اس میں کیا ہے جس نے مجھے مجبور کیا کہ خرید لوں۔ اور یقین کریں پھر اسے نیچے نہیں رکھ پایا۔ اتنی خوبصورت کتاب بہت کم پڑھنے کو ملی ہے اور رحیم یار خان کے لیے روانہ ہوتے وقت صرف اس ایک کتاب کو ہی ساتھ رکھ لیا کہ رات کو کہیں رکا تو پڑھتا رہوں گا۔
میں نے بہت خودنوشت پڑھی ہوں گی لیکن جو انگریزی زبان کا ذائقہ اور حیران کن واقعات کا مزہ اس کتاب میں پڑھے وہ اپنی جگہ الگ مزہ ہے۔
صباحت درانی کے والد ایرانی اور والدہ ترک تھیں۔ دونوں استنبول میں ملے تھے۔ یہ شادی 1915 میں استنبول میں ہوئی۔ صباحت کے والدین نے ایک شرط رکھی ان کی بیٹی استنبول رہے گی۔ مطلب کہ اس کا خاوند اسے ایران نہیں لے جائے گا۔
اس ترکی ایرانی جوڑے کی بیٹی صباحت 1918 میں پیدا ہوئیں جس کی بعد میں پاکستانی سفیر سلطان عزیز درانی سے شادی ہوئی۔ جو صباحت درانی نے اپنے والد جمیل کی کہانی لکھی ہے وہ آپ کو دم بخود کر دے کہ آپ سانس لینا بھول جائیں۔
رحیم یار خان سے واپسی پر ملتان دوستوں سے ملنے رکا۔ رات کو تھکا ہوا ایک ڈیرہ بجے کے قریب سویا تھا کہ تین بجے کے قریب آنکھ کھل گئی۔
مجھے سمجھ نہ آئی ایسا کیوں ہوا۔ مجھے کیا چیز بے چین کررہی ہے۔ فورا دماغ میں جو پہلا خیال آیا وہ اس کتاب کا تھا جو میرے ساتھ بیڈپر رکھی تھی۔ مجھے احساس ہوا صرف انسان اور مشکلات یا مسائل ہی نہیں بعض کتابیں بھی آپ کو سونے نہیں دیتیں۔ پانی پیا اور کمرے کی لائٹ جلائی اور اس وقت سے یہی پڑھ رہا ہوں۔
ابھی اسلام آباد واپسی کا سفر بھی کرنا ہے اور اس سے پہلے نیند بھی پوری کرنی ہے اور یہ غیرمعمولی کتاب مجھے سونے نہیں دےرہی۔