شاہ ایران کی ملکہ فرح پہلوی کی خودنوشت ایک پیارے دوست نے گفٹ کی تھی جو میں بڑے عرصے سے ڈھونڈ رہا تھا۔ آج رات شروع کی تو اس سوال کا جواب ملا کہ ہزاروں سال پہلے یونان کے سالانہ میلے میں عظیم ڈرامہ نگار سوفکلیز، آسکائی لس اور یورپیڈیز کے درمیان مقابلہ کیوں ہوتا تھا کہ ان میں سب سے بڑی ٹریجڈی کون لکھ سکتا تھا۔ کون سا ڈرامہ نگار اسٹیج کے سامنے بیٹھے مجمع کو رولا سکتا تھا۔
عام لوگ اپنے جیسے عام لوگوں کی دکھی کہانیوں پر افسردہ نہیں ہوتے تھے نہ روتے تھے۔ انہیں اپنی ٹریجڈی ٹریجڈی ہی نہیں لگتی تھی۔ لیکن جب وہ شاہی خاندان، بادشاہ یا شہزادے کو مشکل میں دیکھتے تھے تو ان کے اندر دو تین احساسات پیدا ہوتے تھے۔
سب سے پہلے تو وہ ڈر جاتے تھے۔ اگر قسمت یا دیوتا ان کے بادشاہ کو بھی تخت سے تختے تک لاسکتا تھا تو وہ کس کھیت کی مولی تھے۔ لہذا ان کے اندر فطری طور پر ڈر خوف اور عدم تحفظ پیدا ہوتا تھا۔ اگر یہ بادشاہ ساتھ ہوسکتا تھا جنہیں وہ طاقتور اور اپنا محافظ سمجھتے تھے تو پھر ہمارے ساتھ تو کسی وقت بھی ہوسکتا تھا۔
دوسرے ان عام لوگوں کے اندر انسانی ہمدردی جاگتی تھی۔ وہ بادشاہوں کی زندگی میں مشکلات اور ٹریجڈی دیکھ کر رونے لگ جاتے۔ ان کی سلامتی کی دعائیں مانگتے چاہے وہی بادشاہ اور شہزادے جب حاکم تھے تو ان پر ظلم کرتے تھے۔ عام لوگ اس لحمے اپنے بادشاہوں، شہزادوں اور حاکموں کی سب زیادیتاں ظلم بھول جاتے۔ ان سے یہ برداشت نہ ہوتا کہ ان کا بادشاہ بھی ایک عام انسان جیسی قسمت کا شکار ہو کر دربدر پھرے۔۔
ملکہ ایران کی یہ خودنوشت بھی کچھ اس طرح کے خیالات آپ کے اندر پیدا کرتی ہے جب سولہ جنوری 1979 کو شاہ ایران اور ملکہ نے آخری دفعہ محل کے ملازمین سے ملاقات کی، ملکہ نے مڑ کر محل کی سیڑھوں اور باغ کو دیکھا۔ کچھ ملازم شاہ ایران کے پائوں گرے کہ مت جائیں، ملکہ نے سب کو پیسے دیے، کچھ رونے لگ گئے۔
یہ ایران میں ان کا آخری دن تھا۔ شاہ ایران جو محل سے روانگی پر اب تک اپنے آنسو روکے ہوئے تھا وہ ائرپورٹ پر وہ آنسو نہ روک سکا۔ وہ سیدھا جہاز کے کاک پٹ میں گیا، پائلٹ کو ہٹایا اور کہا وہ ایران کی حدود کے اندر خود طیارہ اڑاے گا کہ شاید وہ دوبارہ ایران کی فضا نہیں دیکھ پائے گا۔
رات کے اس پہر یہ کتاب شروع تو کر بیٹھا ہوں لیکن اب نیند کوسوں دور چلی گئی ہے۔ خدا بھی ہم انسانوں کو کن کن آزمائشوں میں ڈال کر آسمان پر بیٹھ کر تماشے دیکھتا ہے۔ کبھی شاہ بنا کر تو کبھی شاہ کو گدا بنا کر۔
مجھے یوں لگا جیسے میں بھی ہزاروں سال پہلے یونان کے کسی میلے کے مجمع میں بیٹھا سوفوکلیز کے کسی ٹریجک ڈرامے کو دیکھ رہا ہوں جہاں سب لوگ بادشاہ کے انجام پر افسردہ ہیں چاہے وہ بادشاہ کبھی ان پر ظلم ہی کیوں نہیں کرتا تھا۔ ہزاروں سال سے ہم عام انسانوں کی یہی ٹریجڈی رہی ہے۔ ہمارے دل نرم رہے۔ اپنے بادشاہوں کے زوال پر افسردہ رہے۔