یہ ہمارے عنصر بھائی ہیں جو جناح مارکیٹ میں اعجاز اولڈ بک شاپ پر کام کرتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کے بارے ایک دفعہ لکھا تھا کہ بیس سال جس دکان پر کام کیا تھا انہوں نے کووڈ کے دنوں میں انہیں نکال دیا۔ پریشان تھے۔ ساتھ والی پرانی کتابوں کی دکان کی مالکہ محترمہ شازیہ اعجاز صاحبہ ایک نیک دل خاتون ہیں۔ انہوں نے فورا انہیں اپنے پاس رکھ لیا کہ اللہ مالک ہے آپ ہمارے پاس کام کریں۔
میں تنہائی محسوس کروں تو اپنے ٹی وی شو کے بعد رات گیارہ بجے اس اولڈ بک شاپ چل جاتا ہوں۔ بارہ بجے دکان بند ہوتی ہے۔ ایک گھنٹہ وہاں گزارتا ہوں اور فریش ہو کر گھر لوٹ جاتا ہوں۔ لگتا ہے پرانے دوستوں کی محفل سجا کر ہٹا ہوں۔
عنصر بھائی جلدی سے قہوہ بنا کر مگ میرے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں۔وہاں سے کوئی نہ کوئی اعلی پرانی کتاب مل جاتی ہے۔ آج رات ملا واحدی دہلوی کی ساٹھ ستر سال پہلے کاتب کی لکھائی سے چھپی ہوئی "میرے زمانی کی دلی" ملی۔
وہاں کامران بھائی، عنصر بھائی اور فرید عباسی کام کرتے ہیں۔ تینوں اپنے کام کے ماہر اور محنت کش۔ سارا دن وہ دکان چلاتے ہیں اور شام کو محترمہ شازیہ اعجاز صاحبہ خود دکان پر آکر بیٹھتی ہیں۔ اس دکان کی برکت دیکھیں کہ پرانی کتابوں کی دکان ہے لیکن الحمد اللہ تین چار اسٹاف، بجلی دیگر بلز دے کر بھی منافع دے رہی ہے۔
خیر ایک دن عنصر بھائی بتانے لگے کہ ان کی بیٹی جس نے ابھی گریجویشن کی ہے وہ ایک ارٹسٹ بھی ہے۔ وہ اب یونیورسٹی جائے گی۔ وہ اپنی بیٹی کی پینٹنگز یہاں رکھتے ہیں اور کوئی آرٹ سے محبت کرنے والا لے جاتا ہے۔ شازیہ اعجاز صاحبہ نے انہیں اجازت دے رکھی ہے کہ بیٹی کی پینٹنگز بھی بیچا کریں۔
آج رات میری نظر اس پینٹنگ پر پڑی تو مجھے فخریہ نظروں سے کہا میری بیٹی نے کل رات ہی بنائی ہے۔ آج میں یہاں لے آیا ہوں۔ میں نے قیمت پوچھی اور ادائیگی کرکےخرید لی۔
اب زرا آپ اس باپ کی آنکھوں میں وہ چمک اور فخر محسوس کریں کہ کل رات اس کی بیٹی اقرا شہزادی نے پینٹگ بنائی اور چوبیس گھنٹوں میں وہ بک بھی گئی۔ ایک باپ کے لئے اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہوسکتی ہے اور میں یہی خوشی capture کرنا چاہتا تھا کہ ایک باپ کیسا محسوس کرتا ہے کہ اس کے بچے اپنے ہنر سے پیسہ کمانا شروع کر دیں۔
کسی نے سچ کہا تھا دنیا میں صرف آپ کا باپ ہی ہے جو اپنے بچوں کو خود سے آگے جانے کی تمنا رکھتا ہے۔ جو اولاد سے کبھی حسد نہیں کرتا۔ اولاد کی کامیابی اس کی آنکھیں فخر سے بھر دیتی ہیں۔ یقین نہیں آتا تو اس باپ کی آنکھوں میں دوبارہ دیکھیں جس کی گریجویشن پاس بیٹی کی ایک خوبصورت پینٹگ ابھی ابھی فروخت ہوئی ہے اور وہ ابھی گھر جا کر سب روپے اپنی اس ارٹسٹ بیٹی کے ہاتھوں پر رکھنا چاہتا ہے۔