جب سے دینا بنی ہے شاعروں کو ہر تہذیب اور انسانی معاشروں میں اہم مقام حاصل رہا ہے۔ قدیم یونانیوں سے لے کر عربوں تک شاعروں کو ہمیشہ عزت دی جاتی رہی ہے۔ قدیم عرب میں تو شاعر کو جو عزت ملتی تھی وہ شاید ہی دنیا کے دیگر خطوں کے شاعروں کے حصے میں آئی ہو۔
اور پھر ہومر کی دو طویل نظمیں آج بھی قدیم کلاسک سمجھی جاتی ہے۔۔ Iliad اور Odyssey
عام لوگ شاعروں کے غیرمعمولی تخیل پر حیران ہوتے آئے ہیں کہ ان کے ذہن میں کیسی کیسی خوبصورت باتیں اور لفظ باقاعدہ تربیت کے ساتھ پتہ نہیں کہاں سے نازل ہوتے ہیں اور لفظ دریائی لہروں کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں۔
مجھے تسلیم کرنے دیں کہ شاعری میرا کبھی موضوع نہیں رہا۔ میں prose کا فین رہا ہوں۔ لیکن میوزک کی شکل میں شاعری کو بہت انجوائے کرتا ہوں۔ لیکن پھر بھی شاعروں کو پڑھا ہے اور اب بھی پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔
نعیم بھائی شاعری اور شاعروں کے بڑے فین تھے۔ لیہ کالج میں ڈاکٹر خیال امروہوی سے اتنے متاثر تھے کہ ایک مرحلے پر اپنا تخلص بھی "خیال" لکھنا شروع کر دیا تھا کہ خود بھی شاعری کرتے تھے۔ پھر اشو لال، رفعت عباس، عزیز شاہد، شاکر شجاع آبادی، جہانگیر مخلص جیسے شاعروں سے مجھے بھی معتارف کرایا۔ وہ مجھے کہتے تھے اگر اچھی نثر لکھنی ہے تو اچھی شاعری پڑھنی چائیے کہ شاعر سے بہتر ذخیرہ الفاظ کسی کے پاس نہیں ہوتا اور ان سے زیادہ خوبصورتی اور اختصار ساتھ ان الفاظ کا استمعال اور کوئی نہیں کرسکتا۔
یہ سب باتیں مجھے خوبصورت انسان اور کالم نگار اظہارالحق کی اس نئی شاعری کی کتاب کو ہاتھوں میں لے کر یاد آئیں۔ میں اظہار الحق صاحب کی نثر کا بہت بڑا فین رہا ہوں لیکن اس شاعری کی کتاب میں چند غزلیں اور نظمیں پڑھتے ہوئے میری اپنی آنکھیں بھیگ گئیں خصوصا وہ نظم جو انہوں نے اپنے بیٹے حسان کے کوپن ہیگن یونیورسٹی جانے پر لکھی تھی۔ ایک باپ کی بیٹے سے جدائی کو جس طرح اس نظم میں زبان دی وہ کمال ہے۔
اظہار صاحب کی تحریروں میں جو نسٹلیجا تھا میں اس کی وجہ سے ان کے قریب گیا تھا۔ انہوں نے اپنے گائوں، زبان، کلچر کو نثر کی شکل میں امر کر دیا۔
وہی نسٹلجیا آپ کو ان کی شاعری میں ملتا ہے جو میرے جیسے دیہاتی کو رلا دیتا ہے جو اپنی مٹی اور لوگوں سے جڑا ہوا ہو۔
ان کی نظم "ہر شام پلٹتا چرواہا" آپ کو کسی اور دنیا میں لے جاتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں سے آپ واپس نہیں لوٹنا چاہتے۔
ان کی نظم "گائوں" آپ کو مجبور کر دیتی ہے کہ آپ اسے بار بار پڑھیں بلکہ اسے زبانی یاد کرکے کبھی گہرے بادلوں کی گھن گرج کے درمیان برستی بارش میں برآمدے میں پرانی کرسی پر بیٹھ کر آنکھیں موندے گنگاتے رہیں۔
اظہار الحق صاحب کی شاعری کی اس سے بڑی کامیابی ہوگی کہ میرے جیسے انسان کو بھی اپنی غزلیں، نظمیں پڑھنے پر مجبور کر دیا ہے بلکہ دل کررہا ہے دو تین شعر تو زبانی یاد کر لوں۔
ان شعروں کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔
مسجد میں دیا جلا چکی ہوں
تعویذ سب آزما چکی ہوں
اب جان کے ساتھ جائے گا عشق
اس جال میں تو اب آچکی میں
اب پاس ترے رہا ہی کیا ہے
تھے جتنے فریب کھا چکی میں