یہ خبر پڑھتے ہوئے مجھے دو لوگ یاد آئے۔ ایک ہمارے لندن کے دوست ہارون ملک اور دوسرے ملتانی دوست۔ ہارون ملک نے اس سے ملتی جلتی کہانی لکھی تھی جب وہ شاید منی ٹرانسفر بزنس میں کام کرتے تھے۔ یاد پڑتا ہے وہ شاید ایک بوڑھا انگریز تھا جو کسی کو لندن سے باہر پیسے بھیج رہا تھا اور ملک صاحب نے اس کے ترلے منت کیے کہ بزرگو جانے دیں یہ فراڈ ہورہا ہے لیکن وہ نہ مانے۔
کہتے ہیں لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان ہے نسبتا اس بات پر قائل کرنے کے کہ انہیں بیوقوف بنایا جارہا ہے۔ (اب پوری کہانی ملک صاحب ہی دوبارہ اپنی فیس بک پر پوسٹ کرسکتے ہیں)۔
اب آتے ہیں میرے ملتانی دوست کی طرف۔ 1996 کا کوئی ماہ تھا جب ہم تین ملتانی دوست لاہور میں باغ جناح والے چوک کے قریب ایک بلڈنگ میں ایک فلیٹ پر رکے ہوئے تھے۔ وہاں ایک ٹیلی فون بھی تھا۔
ایک دن فون کی گھنٹی بجی تو میرے اس دوست نے فون اٹھایا اور پھر اگلا پورا ماہ وہ فون سے ہی چپکا رہا۔ ہم دونوں پر حکم تھا کہ ہم نے گھنٹی پر فون نہیں اٹھانا چاہے قیامت آکر گزر جائے۔ اسے خوبصورت لڑکی مل گئی تھی۔ وہ ہمارا دوست کھانا پینا سونا سب کچھ بھول گیا۔ میں سارا دن لاہور کے انگریزی اخبارات کے دفاتر میں چکر لگاتا کہ شاید کہیں رپورٹر کی نوکری مل جائے۔
خیر مجھے تو نوکری نہ ملی لیکن اس دوست کو چھوکری ملی گئی جو ملتان سے مجھے کمپنی دینے آیا تھا۔ ساتھ والے کمرے سے رات بھر میٹھی آوازیں، دردناک حسرت بھری سسکیاں ابھرتیں تو کبھی قہہقے تو کبھی منت ترلے۔ وہ بعد میں ہمیں چسکے لے کر باتیں سناتا اور ہمیں یوں لگتا اس کےساتھ ساتھ ہم دونوں بھی اس ان دیکھی خوبصورت پری کی محبت میں ہوگئے تھے۔
آخر وہ D Day آن پہنچا جب شہزادہ سلیم اور انار کلی کی ایک شاہی باغ میں ملاقات طے ہوئی۔ لڑکی نے ہمارے دوست کو انجیرنگ یوینورسٹی کے قریب کسی شاہی باغ بلایا تھا۔ ایک دوسرے کو نشانیاں اور حلیے تک بتائے گئے۔ کلف لگے کپڑے ایک گھنٹہ تک استری ہوتے رہے۔ جوتے خوب چمکائے گئے، پھر پرفیوم میں خود کو نہلایا گیا اور ہمیں آنکھ دبا کر نکل گئے۔ اچانک کچھ خیال آیا باہر سے واپس آئے اور سختی سے بولے ہاں اگر پیچھے فون کی گھنٹی بجے تو بالکل نہیں اٹھانی۔
ہم نے کہا جی سردار جو حکم۔
کوئی گھنٹہ گزرا ہوگا کہ فلیٹ کا دروازہ دھڑام سے کھلا اور وہی دوست ہونق شکل بنائے دوڑتے اندر داخل ہوئے۔ منہ پر بارہ کی بجائے چودہ بجے ہوئے تھے۔ اتفاق دیکھیں کہ اس وقت ہی فون کی گھنٹی بجی۔ وہ دوست چلایا فون اٹھا لو فون اٹھا لو۔ وہ اماں پوچھے تو کہہ دینا اس کے گھر ایمرجنسی ہوگئی تھی اور وہ ابھی ملتان نکل گیا ہے۔
ہم دونوں دوست ہکے بکے کہ یہ کیا ہوگیا تھا اور یہ اماں کون ہے۔
اس نے چیخ کر کہا وہ بعد میں بتائوں گا پہلے اسے بتائو وہ ملتان نکل گیا ہے۔
خیر بات کچھ یوں کھلی موصوف وہیں باغ میں ایک بینچ پر آتے جاتے ہر خاتون اور لڑکی کو گھور رہے تھے کہ ان میں سے کون سی حلیے پر پورا اترتی ہے۔ موصوف کے ذہن اور دل میں اس لڑکی ک عمر بیس سے بائیس سال تھی۔
اچانک ایک ساٹھ سال سے اوپر کی خاتون اس کے قریب آکر بیٹھ گئی اور شرما کر بتایا وہ وہی ہے جس کی تڑپ انہیں رات بھر سونے نہیں دیتی تھی۔
ملتانی کو ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے بچا۔
کہنے لگا مرشد وہ تو میری ماں کے برابر تھی۔ اب دوست پھنس گیا کہ اتنی ساری کہانیاں اسے سنا چکا تھا۔ اب اس پورے کھیل کا closure کیسے کرے۔ وہ اب بینچ سے دور ہٹے تو وہ مزید قریب ہو۔
دوست کہنے لگا مرشد حد تو اس وقت ہوئی جب اس نے مجھے کہا جانو ایک چمی تو دو۔
کہنے لگا بڑی مشکل سے اپنی عزت بچا کر واپس آیا ہوں۔ اتنا بڑا دھوکا مظلوم ملتانی ساتھ؟
میں نے کہا مرشد جو کچھ آپ ایک ماہ مسلسل دن رات فون پر کرتے رہے ہیں، ہم مسکینوں کی بھی راتوں کی نیند خراب اور سکسکیاں لے لر اپنے ساتھ ہماری حسرتیں کو بھی ہوا دیتے رہے، اب اس انجام پر اسے عزت بچانا کہتے ہیں؟
میں نے کہا یہ ہم دونوں مظلوموں کی بددعا تجھے لگی ہے جنہیں تم فون تک نہیں اٹھانے دیتے تھے اور پھر اس کے بعد اس فون کی گھنٹی کئی راتوں تک بجتی رہی اور ہمیں کرنٹ لگتا جیسے اس میں سے وہ خاتون ہمیں دیکھ رہی ہے۔
ہم دودھ کے جلے تھے۔ چھاچھ سے دور ہی رہے۔
میں نے دوسرے دوست کو کہا وہ تو بزدل نکلا۔ واپس ملتان بھاگ گیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کچھ ہمت کریں۔ شاید آپ یہ بھاری پتھر اٹھا لیں؟
ایک تو دل کیا اس کے ملتان کے گھر کا نمبر دے کر اس سے بدلہ لوں جو اس نے ایک ماہ اپنے ساتھ ساتھ ہماری کنواری حسرتوں کو بھی مٹی میں ملا دیا تھا۔