بعض کتابیں بھی آپ سے دور رہنا پسند کرتی ہیں۔ محبوب کی طرح روٹھ جاتی ہیں۔ نخرے کرتی ہیں۔ مجھے کاتب کے ہاتھ سے لکھی کتابوں کی obsession ہے۔ شاید جس دور میں پڑھنے کا شوق ہورہا تھا اس وقت کمپیوٹر ابھی نہیں آیا تھا لہذا وہ کاتب کی عادت ابھی تک ساتھ ہے۔ مجھے بلونت سنگھ بہت پسند ہے۔ اس کے ناول یا افسانے ان پر میں جان دیتا ہوں۔ اگرچہ گگن شاہد اور امر شاہد نے ان کے شاندار نئے ایڈیشن بک کارنر سے چھاپے لیکن دل پھر بھی کتابت والے ایڈیشن تلاش کرنے میں لگا رہتا ہے۔
میں نے زندگی میں جن ادیبوں کے کتابت والے ایڈیشن ڈھونڈنے کی سرتوڑ کوشش کی ان میں قرت العین حیدر اور بلونت سنگھ سرفہرست ہیں۔ ابھی بلونت سنگھ کا ناول چک پیراں کا جسا ہی دیکھ لیں۔ دو تین برس پہلے ملتان میں جمشد رضوانی کے ساتھ خالد مسعود کے گھر وہی کتابت والا ایڈیشن دیکھا۔ دل مچل گیا لیکن میں نے نہیں مانگا۔ مانگ بھی لیتا تو خالد نے ناول کی بجائے تین چار سرائیکی پنجابی ملی جلی گالیاں ہی دینی تھیں۔
پھر پچھلے سال اسمبلی کی لابییری میں پڑے دیکھا تو صرف تصویر لے کر دل بہلا لیا۔ گگن شاہد کتابیں تلاش کرکے دینے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا جناب آپ کو قرت العین اور بلونت سنگھ ڈھونڈ کر دیتے ہیں اور جس طرح گگن شاہد نے قرت العین حیدر کا کار جہاں دراز ہے ڈھونڈا ہے اس پر دل کرتا ہے انہیں الطاف بھائی کی طرح ایک پپی ادھر اور ایک پپی ادھر۔ انہوں نے جس طرح وہ بندوبست کیا اس پر شکر گزار ہوں۔ لیکن چک پیراں کا جسا پھر بھی نہ ملا تو انہوں نے کسی کو کہہ کر مجھے اس کی فوٹو کاپی کرا کے بھجوا دی۔ زرا گگن شاہد کی محبت چیک کریں۔
خیر کچھ ہفتے پہلے اتوار بازار انار کلی کی پکس دیکھیں جو کسی نے فیس بک پر آپ لوڈ کی ہوئی تھیں تو اچانک وہاں کتابوں کے ڈھیر میں چک پیراں کا جسا نظر آیا۔ میں نے فورا ارسلان بھائی کو فون کیا کہ برادر آپ بھی وہیں بکس سیل کررہے ہیں بھاگ کر جائیں میرے لیے لے لیں۔ وہ بے چارے بارش میں بھیگتے گھر سے نکلے۔ جب تک انار کلی کے اس اسٹال پر پہنچے وہ بک چکا تھا۔
میں شام تک ڈپریس رہا کہ کمند کہاں ٹوٹی۔ پھر امید جاگ پڑی جب ایک آن لائن بک سیلر نے وہی چک پیراں کا جسا فروخت کے لیے فیس بک پر لگایا ہوا تھا۔ فوراََ انہیں ان باکس کیا۔ جواب ملا سوری وہ کسی اور نے خرید لیا تھا۔ پھر سوچا ڈاکٹر انوار احمد صاحب ذمے لگائوں پتہ چلا انہوں نے اپنی کتابیں ناصر شیخ اور شکیل انجم کے بہکاوے میں آ کر ملتان پریس کلب کو عطیہ کر دی ہیں۔
اتنی محنت میں نے محبوب یا گوتم بدھ کی طرح نروان پانے کے لیے کی ہوتی تو شاید کب کا پا چکا ہوتا۔ بلونت سنگھ بھی اوپر بیٹھا مجھ پر ہنس رہا ہوگا۔ اب تو جی کرتا ہے کہ خوبصورت ہاتھ کی لکھائی والا پرانا کوئی کاتب تلاش کروں۔ اس سے بلونت سنگھ کے سب ناولز لکھوا کر اپنے لیے چھپوا لوں اور تو کوئی حل نہیں بچا۔ جیسے بعض کتابیں بقول ارسلان ہجرت کرکے آپ کو تلاش کرتی ہیں تو لگتا ہے بلونت سنگھ جیسے ادیب کا چک پیراں کا جسا مجھے چکر دے رہا ہے۔ جسا سنگھ مجھ پر ہنس رہا ہے۔