ڈاکٹر انوار احمد صاحب بارے جمشید رضوانی نے برسوں پہلے ایک جملہ کہا تھا جس میں وہ پورے کے پورے سما گئے تھے۔ "ڈاکٹر صاحب استاد نہیں بلکہ پرانے زمانوں کے اتالیق ہیں جو مختلف زمانوں کا سفر کرکے اس جنم تک پہنچے ہیں"۔
میرے اوپر جن چند ہستیوں کا بڑا گہرا اثر رہا ہے ان میں ڈاکٹر صاحب بھی ایک اہم کردار ہیں۔ وہ گھنٹوں باتیں کرتے رہیں اور آپ سنتے رہیں اور کبھی بور نہ ہوں۔ اگر کوئی دوسرا بندہ ڈھونڈنے لگ جائوں جو روزانہ اتنا ہی مطالعہ کرتے تھے جتنا ڈاکٹر انوار صاحب کرتے ہیں تو وہ نعیم بھائی اور ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔ ان تینوں کو کتابوں کا رسیا پایا۔
ان تینوں میں ایک اور حیران کن خوبی مشترک تھی۔ ان کا ہر ملنے والا، کولیگز، سنگی ساتھی، دوست یا ہزاروں شاگرد یہی سمجھتے تھے کہ ڈاکٹر نعیم کلاسرا، ڈاکٹر ظفر الطاف یا ڈاکٹر انوارا احمد صرف ان کا کلوتا لنگوٹیا ہے۔
اگر کبھی آپ کا دل کرے کوئی ایسا بندہ ہو جو دنیا بھر کے ہر موضوعات اور زمانوں پر باتیں کرتا ہو اور بور بھی نہ ہونے دیتا ہو اور آپ اسے سنیں اور سمجھیں تو وہ یہی ڈاکٹر صاحب ہیں۔
انہوں نے ہی انگریزی اخبار فرینٹر پوسٹ ملتان کے بیوروچیف مظہر عارف صاحب کو فون کرکے کہا تھا رئوف اچھا لڑکا ہے اسے اپنے دفتر میں انٹرشپ پر رکھ لو۔ اس ایک فون کال اور مظہر عارف صاحب ساتھ گزارے ان تین ماہ نے میری قسمت ہی بدل دی تھی۔ میں نے بھلا کب صحافی بننا تھا بس وہی ماریو پزو کے ناول گاڈ فادر کے ڈان ویٹو کارلیون والی بات کہ ہر بندے کی ایک منزل ہے اور تقدیر اسے وہیں لے جاتی ہے۔ میری تقدیر مجھے پہلے ڈاکٹر انوار صاحب اور پھر مظہر صاحب پاس لے گئی تھی۔ باقی وہی انگریزی والا جملہ Rest is history..
ڈاکٹر صاحب سے پہلا تعارف 1991 میں ہوا تھا جب ملتان یونیورسٹی میں انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ ہوا جو بعد میں ایک گہرے ذاتی تعلق میں بدلہ۔ ان تمام برسوں میں مجھے کبھی نہ لگا کہ وہ طالبعلم ہونے مجھے ناطے کم اور اب زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ہمیشہ وہی سلوک جو پہلے دن دیا تھا۔
ان کی باقی باتیں ایک طرف مجھے 1993 کی ملتان کی وہ سخت دوپہر نہیں بھولتی جب میں یونیورسٹی بس سے ان کے گھر پہنچا۔ کوئی ضروری کام تھا۔ ان کے گھر کی بیل دی۔ وہ دوپہر کو سو رہے ہوں گے۔ آنکھیں ملتے گیٹ پر آئے۔ انہیں لگا کہیں وزیٹر کو یہ نہ لگے کہ میں نے انہیں نیند سے اٹھایا ہے تو وہ مسکراتے ہوئے باہر نکلے۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی کہ انہیں جگا دیا تھا۔ خود کوئی مجھے جگائے تو میرا موڈ بہت برا ہوجاتا ہے۔ گھر میں اب بھی صرف عنایہ کو یہ آزادی یا جرات ہے کہ میں سویا ہوا ہوں تو وہ بے دھڑک اٹھا سکتی ہے ورنہ میرے بچے بھی ہمت نہیں کریں گے۔
کام میرا تھا تو شام کا انتظار کرتا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو آنکھیں ملتے دیکھ کر شرمندگی کا اظہار کرنا چاہا تو انہوں نے فوراََ روک دیا اور گھر کے اندر لے گئے۔ میں پسینے سے شرابور۔ وہ ٹھنڈا شربت کا گلاس لائے۔ اطمینان سے میری بات سنی اور مدد کا وعدہ کیا اور اگلے دن پورا کیا۔
اب جب بھی میرے اسلام آباد مکان پر اس طرح کوئی کسی دوپہر باہر سے بیل بار بار بجائے اور میں نیند سے جاگ جائوں اور شدید غصہ آنے لگے تو خود کو تیس سال پہلے ڈاکٹر انوار صاحب کے گھر کے باہر تپتی دوپہر میں کھڑے پاتا ہوں۔