کرکٹ کے معاملات پر ڈاکٹر نعمان نیاز ایک اتھارٹی ہیں۔ ان جیسا کرکٹ کا نالج میں نے کسی اور بندے پاس نہیں دیکھا۔ ان کے سامنے پروفیشنل کرکٹرز بھی گیم کا اتنا نالج نہیں رکھتے۔ پی ٹی وی پر سپورٹس شو گیم آن اے شروع کیا اور اپنا لوہا منوایا۔
خیر تین چار دن پہلے ان سے کرکٹ کے ایشو پر بات ہورہی تھی۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب میں نے اپنی زندگی میں دو بیٹسمین ایسے دیکھے ہیں جو کبھی کسی بڑے سے بڑے باولر سے نہیں گھبرائے۔ ان کی باڈی لینگویج سے کبھی نہیں لگا انہیں کسی باولر سے ڈر لگ رہا ہے یا وہ کھیلتے ہوئے نروس ہیں اور کھل کر کھیلے چاہے سامنے میرا آل ٹائم فیورٹ ڈینس للی ہو یا ایمبروز۔
ڈاکٹر صاحب نے غور سے میری طرف دیکھا کہ کیا نام لینے لگا ہوں۔
میں نے کہا ویوین رچرڈز اور انضمام الحق۔ مجال ہے ان کی باڈی لینگویج سے کبھی لگا ہو کوئی باولر انہیں ہلکا سا بھی نروس کرنے میں کامیاب ہو۔ جس اعتماد اور بے خوفی سے یہ کھلیتے تھے وہ کمال ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی آنکھوں میں کچھ حیرت پھیلی اور بولے اس کا مطلب ہے آپ کو کرکٹ کی کچھ سوجھ بوجھ ہے۔
میں نے کہا سر جی بس اپنے مرحوم مہربان ڈاکٹر ظفر الطاف کی اٹھارہ برس کی محفلوں سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ کہا کرتے تھے شعیب اختر جیسا خطرناک باولر 161 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بال پھینکنے کے لیے بیٹسمیں کی طرف جارحانہ انداز میں دوڑے تو کریز پر بیٹسمین کو اس کا pride ہی اس بال کا سامنا کرنے پر قائل کرسکتا ہے۔ انسان پرائڈ کے لیے جانیں دیتے بھی آئے ہیں اور لیتے بھی آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایسے بیٹسمین کے اعتماد کو اس کے پرائڈ سے جوڑتے تھے۔
ڈاکٹر ظفر الطاف سے بہتر کرکٹ اور کرکٹرز کو کوئی نہیں سمجھتا تھا۔ 9 برس پہلے ان کی وفات کے بعد تو لگتا ہے میری ذہنی گروتھ ہر روز نئی بات نیا قصہ، نئی کہانی سننے اور سیکھنے کا سفر رک سا گیا ہے۔ اگر میں اپنی زندگی میں کسی ایک بندے کو اپنا mentor مانتا ہوں تو وہ ڈاکٹر صاحب تھے۔ متاثر بہت سارے لوگوں سے ہوا ہوں لیکن جتنا متاثر ڈاکٹر ظفر الطاف صاحب سے ہوا کبھی کسی سے نہ ہوا۔ کیا غیرمعمولی خوبصورت ذہن اور ظرف بھرا انسان تھا۔