جدید دور کی سب ٹیکنالوجی کا مزہ لے لیا تو اب دوبارہ پرانا ریڈیو سننے کو جی کرتا ہے۔ اپنا گائوں، اپنا گھر، برامدہ اور ریڈیو یاد آتا ہے جس پر میوزک، کرکٹ کمنٹری سنتے تھے۔
کسی عرب ملک گیا تو بازار میں یہی ریڈیو دیکھا تو دل مچل اٹھا۔ بچپن یاد آیا۔ فورا خرید لیا۔ ساتھ ہی آل انڈیا ریڈیو کا App ڈائون لوڈ کر لیا۔ رفیع صاحب کا بھی الگ سے ایپ ڈائون لوڈ کیا۔ بلیوٹوتھ سے اس ریڈیو ساتھ لنک کرکے اب ہر وقت پرانے انڈین گانے ہی چلتے رہتے ہیں۔ جب برسوں پہلے گھر ریڈیو آیا تھا تو اپنے دور کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی تھی۔ پھر ٹیکنالوجی نے قیامت ہی ڈھا دی۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو یقین نہیں آتا کہ ویک اینڈ پر گائوں کے ہم لڑکے ہی تھے جو وی سی آر پر فلمیں چھپ کر دیکھتے تھےتو جہاں اماں کا خوف وہیں پولیس چھاپے کا ڈر الگ سے۔
میں نے تو باقاعدہ اماں کے غصہ دلانے پر بڑے بھائی سے تھوڑی سی ٹھکائی بھی کرائی ہوئی ہے کہ رات کو چپکے سے اٹھ کر فلم دیکھنے نکل گیا تھا۔ اماں کے کہنے پر بڑے بھائی نے غصے میں ایک آدھ جڑ بھی دی تھی لیکن اپنے "احساس جرم" کے ہاتھوں مجبور ہو کر اگلے دن وی سی آر خرید کر لائے تھے کہ چلو گھر فلمیں دیکھا لیا کرو۔ میں گھر کا لاڈلا تھا مجھے کبھی کسی نے نہیں مارا تھا۔ اس لیے میں کتنے دن بھائی صاحب سے نہیں بولا تھا کہ مجھے کیوں ڈانٹا تھا۔ بڑے منت ترلے بعد میں ان سے مانا تھا۔
اب اس ریڈیو پر بیٹھا رفیع صاحب کے گانے سن رہا ہوں اور وہی دن یاد آتے ہیں۔ گائوں کا صاف ستھرا صحن، چارپائی پر تکیہ اور چادر اور میں ریڈیو ساتھ رکھ کر گانے سن رہا ہوں۔
آج جب بیگم صاحبہ مجھے یہ گانے سنتے دیکھ کر مشکوک ہوتی ہیں تو انہیں تو جواب نہیں دے پاتا کہ میں اتنا میوزک کیوں سنتا ہوں یا کس کی یاد میں گم ہوں۔ پھر خود سے پوچھتا ہوں اگر انہیں بتائوں کہ مجھے تو لتا رفیع مکیش کشور کے گانے اس وقت بھی اپنے سحر میں لے لیتے تھے جب ابھی شاید آٹھ دس برس کا ہوں گا تو انہوں نے کون سا یقین کر لینا ہے۔ لہذا ان کے شکوک کو یقین میں بدلنے کے لیے مسکرا دیتا ہوں کہ بچپن میں تو ذہن میں کوئی نہیں ہوتا جس کی یاد میں دکھی گانے سنے جاتے۔
بعض روحیں پیدا ہی اداس گانے سننے کے لیے ہوتی ہیں، شاید جو روح کو سکون بخشتی ہیں۔ اب یہ باتیں کون کس کو سمجھائے۔ ابھی دیکھ لیں یہ کوئی تک بنتی ہے کہ آپ نیند سے جاگیں اور ریڈیو آن کریں تو آگے سے رفیع صاحب کا گانا آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لے۔