سردیوں کے اس اداس سرد موسم میں اگر کسی نے سہارا دیا ہےتو وہ رضائی میں دبک کر کتابیں پڑھنے نے دیا ہے۔ اصغر ندیم سید کی سنگ میل سے چھاپی گئی خاکوں کی کتاب سے کام شروع ہوتا ہوا جاوید صدیقی کی کتابوں"روشن دان" اور "لنگر خانہ" تک جا پہنچا۔
درمیان میں ڈاکٹر انوار احمد صاحب کی وال پر نورالحسن جعفری کی"منتشر یادیں" نظر آئی تو ان سے بھی بڑے دھڑلے سے مانگ لی۔ کتاب مانگنے میں کبھی نہیں شرمایا لیکن کوئی مجھ سے کتاب مانگ لے یہ برداشت نہیں ہوتا۔ انوار احمد صاحب بعض دفعہ ایسی شاندار کتابوں کا تعارف اپنی وال پر لگاتے ہیں کہ منہ میں پانی بھر آئے۔
اب پروفیسر فتح محمد ملک کی خود نوشت زیر مطالعہ ہے۔ اگرچہ آج کل خودنوشت لکھنے کا رواج کم ہے۔ کسی دور میں ادیب، شاعر اور افسران کتابیں لکھتے تھے۔ شاید اب یا تو شاعر ادیب نہیں رہے یا افسران کے پاس بتانے کو کچھ نہیں رہا۔
پچھلے دنوں سنگ میل نے ہی بہت خوبصورت ادیب اور سابق بیوروکریٹ طارق محمود کی خودنوشت "دام خیال" چھاپی تھی۔ بڑے عرصے بعد کوئی معیاری اور خوبصورت خودنوشت پڑھنے کو ملی تھی خصوصا اگر مشرقی پاکستانی کی ٹریجڈی پڑھنی اور سمجھنی ہو تو اس سے بہتر کوئی کتاب نہیں ہوگی۔
ابھی بک کارنر جہلم نے بھی محمد شاہد حمید کی خودنوشت چھاپی ہے۔ اسے ابھی شروع نہیں کرسکا کہ اس کے اندر کیا چھپا ہوا ہے۔ فی الحال تو خوبصورت رویوں کے مالک پروفیسر فتح محمد ملک کی خودنوشت میں گم ہوں۔
ہندوستان کی تقسیم سے پہلے ہوش سنبھالنے والے انسان کی یاداشتیں آپ پڑھنا شروع کرتے ہیں تو پھر پڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ آپ پچھلے زمانے کے لوگوں اور روایات میں کھو جاتے ہیں۔
آپ صدیوں کا سفر گھنٹوں میں طے کر لیتے ہیں۔ پوٹھوہار کی خوبصورت دھرتی کے ایک گائوں سے شروع کیے گئے سفر کی کہانی آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور آپ گائوں سے نکل کر سکول، کالج پھر صحافت سے لیکچرشپ سے ہوتے ہوئے جرمنی تک پہنچ جاتے ہیں اور واپسی پر قائداعظم یونیورسٹی اور نیشنل لینگویج اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر ریٹائرڈ ہوتے ہیں۔ درمیان میں جنرل ایوب، فاطمہ جناح، بھٹو، جنرل ضیاء کے دور کی تلخ سیاسی یادیں بھی آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ پھر بینظیر بھٹو اور نواز شریف دور کے کمالات بھی آپ کو کچھ دیر حیرانی کا شکار کرتے ہیں۔
قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامہ کا گم شدہ باب بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ سیاست اپنی جگہ لیکن پاکستانی ادب اور ادیبوں کے حوالوں سے جو تاریخ قلم بند کی گئی وہ ادب پڑھنے والوں کے لیے الگ سے ایک تحفہ ہے۔ ہوسکتا ہے میں نے چند سطروں میں یہ سب کچھ سمو دیا ہو اور آپ نے چند سکینڈز میں پڑھ بھی لیا ہو لیکن یہ پوری ایک صدی کا قصہ ہے۔ ایک سیلف میڈ انسان کی جدوجہد اور ہمت کی کہانی ہے خصوصا جس عمر میں آپ نے لائف پارٹنر کو کھو دیا وہ الگ سے ایک تکلیف دہ احساس ہے جو عمر بھرآپ کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ ماں کی محبت یا باپ کی چاہت۔
فتح محمد ملک پاکستان کے ساتھ ہی جوان اور بوڑھے ہوئے ہیں لہذا وہ تاریخ کے ایک ایک سال کے گواہ ہیں اور اپنی آنکھوں سے آپ کا ہاتھ پکڑ کر اس ملک کی سیاسی، ادبی، صحافتی، سماجی اور کلچرل لائف سے معتارف کراتے جاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے ہماری آج کی نسل ان کرداروں سے واقفیت نہ رکھتی ہو جو اس کتاب میں شامل ہیں لیکن اگر آپ ایک صدی کا سفر چند گھنٹوں میں طے کرنا چاہتے ہیں تو اس موسم میں اس سے بہتر کتاب آپ کو اور کوئی نہیں ملے گی۔ ایک خوبصورت زبان میں لکھی گئی خوبصورت لیکن سنجیدہ موضوعات پر لکھی کتاب جو آپ کا دل عرصے تک گرمائے رکھے گی۔
ایک سیلف میڈ انسان کو اپنے پائوں جمانے اور اسمان کو چھونے کے لیے کتنے جنگل اور دریا عبور کرنے پڑتے ہیں، وہ اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے۔ یہ طے ہے زندگی میں گھر بیٹھے کچھ نہیں ملتا۔ ہمارے دورکے بڑے شاعر رفعت عباس کے بقول عشق میں تو دو جنگل اور تین دریا بھی عبور کرنے پڑتے ہیں۔ فتح محمد ملک تو زندگی کے اس طویل سفر میں سات سمندر عبور کر گئے تھے۔