طاہر علی بندیشہ اپنی طرز کے نفیس، شستہ، نستلیق اور خوبصورت نوجوان ہیں۔ دوبئی میں رہتے ہیں لیکن دل ان کا پاکستان اور پنجابی زبان میں رہتا ہے۔ بہت خوبصورت پنجابی بولتے ہیں بلکہ ہر وقت بولتے ہیں۔ انہیں پنجابی زبان ہی سوٹ کرتی ہے۔ وہ کوئی اور زبان بولیں تو شاید وہ طاہر بندیشہ نہیں لگیں گے۔
انہوں نے کل ایک سوال کیا ہے جو قابل احترام بھارتی وزیراعظم جواہرلعل نہرو صاحب کے خطوط کی کتاب کے بارے ہے۔
میں نے لکھا تھا کہ نہرو جی نے جیل سے اپنی ٹین ایج بیٹی اندرا کے لیے جو خطوط جیل سے لکھے اور جنہیں دنیا بھر میں شہرت ملی تھی وہ اندرا نے اس وقت پڑھے ہی نہیں تھے۔
اب طاہر بندیشہ نے پوچھا ہے تو کیا اندرا نے بعد میں خطوط پڑھے یا نہیں؟
اس کتاب کو ہی دیکھ لیں جس کا پہلا ایڈیشن 1934 میں چھپا تھا اور بعد میں کئی ایڈیشن چھپے۔ بلکہ نہرو صاحب کو اپنی کتابوں کی بہت زیادہ رائلٹی ملتی تھی جو لندن کے پبلشرز ادا کرتے تھے اور نہرو صاحب کی کمائی کا بڑا زریعہ بھی رائلٹی تھی۔ اندرا جب لندن تھیں تو کبھی کبھار پیسے کم پڑ جاتے تو نہرو صاحب اپنے پبلشرز سے اس کو پونڈز دلواتے تھے۔
خیر اندرا گاندھی جب چوتھی دفعہ 1980 میں وزیراعظم بنیں تو انہوں نے پینگوئن پبلشرز سے نیا ایڈیشن چھپوایا اور اس کا دیباچہ بھی لکھا 4 نومبر 1980 کی تاریخ کا۔ اس میں انہوں نے نہرو صاحب کی کتاب Discovery کا ذکر کیا ہے جب اندرا کے بقول انہوں نے اس کتاب کا پروف پڑھا اور درست کیاجب ان کے والد کلکتہ میں تھے۔ اس Glimpses بارے وہ اتنا لکھتی ہیں کہ وہ میرے لیے لکھے گئے خطوط تھے لیکن اس سے زیادہ انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔ لہذا ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اندرا نے اس کتاب کا دیباچہ لکھنے وقت تک بھی وہ خطوط نہیں پڑھے تھےجو چھیالیس سال قبل اسے لکھے گئے تھے ورنہ وہ مزید ان پر کمنٹ ضرور کرتیں۔ انہوں نے نہرو صاحب کی بائیوگرافی اور ایک اور اہم کتاب "ڈسکوری" پر بات کی۔ خطوط والی اس کتاب کا بس سرسری سا ذکر کیا۔
زرا تصور کریں نہرو صاحب نے انگریز دور کی جیل کے سیل میں بیٹھ کر جو خطوط اپنی نوجوان بیٹی کا تصور کرکے لکھے تھے وہ بیٹی نے چار دفعہ وزیراعظم بن کر بھی نہیں پڑھے لیکن اندرا یہ لکھنا نہ بھولیں کہ ان کا باپ کتابوں کا رسیا تھا کیونکہ کتابیں اسے زیادہ سے زیادہ خوشی اور نئے خیالات فراہم کرتی تھیں جو اس کی طاقت تھے۔ لیکن وہی بات گھر کے پیر سے کوئی تعویذ نہیں لیتا لہذا اندرا نے بھی باپ کے وہ خطوط نہیں پڑھے جو آج میں ان کے لکھے/چھپنے کے 91 برس بعد پڑھ رہا ہوں۔