آج ہمارے بڑے بھائی سرور باجوہ صاحب نے لیہ کالج کے ہم سب کے لیجنڈ استاد پروفیسر جی ایم صاحب کی تصویر شئیر کی تو بہت ساری یادیں لوٹ آئیں۔
1989 میں لیہ کالج میں پہلی دفعہ انگلش لٹریچر آپشنل سبجیکٹ کے طور پر معتارف ہوا تو مجھے میرے ایک اور استاد بلکہ محسن پروفیسر ظفرحسین ظفر صاحب نے بلا کر کہ تم یہ رکھ لو۔ انہیں انگلش لٹریچر سے میری رغبت کا علم تھا۔ میں بھکر سے تعلق رکھنے والے ظفر صاحب کا دیگر احسانات کے علاوہ اس مشورے کا آج تک مشکور ہوں اور رہوں گا۔ میں نے فورا مشورہ مان کر انگلش لٹریچر آپشنل رکھ لیا۔
لیہ کالج میں اکنامکس کے دو ہی اعلی استاد تھے ظفر حسین ظفر صاحب اور بابر خان صاحب اور ان دونوں کا بہت احترام تھا۔
اس نئی لٹریچر کلاس میں کل گیارہ لڑکے داخل ہوئے اور آخر پر دو سال بعد صرف دو نے فائنل امتحان دیا۔ باقی چھوڑ گئے۔
ملتان یونیورسٹی میں انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں صرف میرا داخلہ اس انگریزی لٹریچر کو آپشنل لینے پر ہوا تھا۔
خیر میرا روم میٹ اور دوست ذوالفقار سرگانی بھی چند دن اس لٹریچر کلاس میں آتا رہا۔ ایک ایک کرکے باقی نو لڑکے چھوڑ گئے تھے جن میں ذوالفقار بھی تھا۔ اب ذوالفقار روز رات کو ہوسٹل کمرے میں مجھے لڑیچر کی بکس پڑھتے دیکھتا تو کافی وقت لگا کر مجھے سمجھاتا تھا کہ میں یہ بیوقوفی نہ کروں۔ کل نمبرز 850 ہیں اور ان میں سے دو سو نمبرز کی لازمی انگلش اور اوپر سے آپشنل دو سو نمبرز کا انگریزی لٹریچر۔۔ لوگوں سے دو سو نمبرز کی لازمی انگلش پاس نہیں ہوتی۔ چار سو نمبروں کی انگریزی کیسے پاس ہوگی اور کیسے فرسٹ ڈویزن لو گے۔
ذوالقفار کی ایک ہی دلیل ہوتی تھی کہ یہ استاد انگلش لٹریچر کے نام پر ہم سب پر تجربہ کریں گے اور ہم مارے جائیں گے۔ میں کہتا تھا اس وجہ سے تو کلاس لے رہا ہوں کہ یہی سب استاد اسے چیلنج کے طور پر لیں گے تاکہ کالج اور ان کا نام ہو اور کوئی آدھ لڑکا اگر یونیورسٹی چلا گیا تو کالج میں لٹریچر کا مضمون مقبول ہوگا (وہی ہوا جب میرا دو سال بعد ملتان یونیورسٹی ایم اے انگلش میں داخلہ ہوا جس کی وجہ میرے ان سب استادوں کی بہت محنت اور محبت تھی)۔
ایک دن ہمارا ایک اور روم میٹ کبریا خان میری مدد کو آیا اور مذاق میں کہا خان جی پڑھنے دو اس غریب کو۔ پڑھنا اور امتحان اس نے دینا ہے رات کو نیند تمہیں نہیں آتی۔
خیر دوستوں میں سب ہنسی مذاق چلتا ہے۔ یہ صرف دو لڑکوں کی کلاس تھی۔ میں اور خالد دستی لیکن ہمیں ہمارے استادوں جی ایم صاحب، شبیر نئیر صاحب، بہادر ڈلو صاحب اور دیگر نے کبھی احساس نہ ہونے دیا کہ وہ صرف دو لڑکوں کو پڑھا رہے ہیں۔ وہ اتنی ہی محنت سے پڑھاتے جیسے وہ پچاس لڑکوں کی کلاس پڑھا رہے ہوں۔ شبیر نئیر صاحب اور بہادر صاحب اور دیگر استادوں کی محبت اور محنت اپنی جگہ جنہوں نے ہم دو لڑکوں انگلش لٹریچر پڑھایا لیکن جس طرح ڈوب کر شکیسپیر کا ڈرامہ جولیس سیزر جی ایم صاحب نے پڑھایا، بھائی کمال۔ کمال۔
برسوں گزر گئے لیکن جی ایم صاحب جیسا شکیسپر کا ڈرامہ کوئی نہ پڑھا سکا۔ حتی کہ ملتان یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر شمس صاحب بھی شکیسپر کے ڈرامے Hamlet کو اس طرح نہ پڑھا سکے۔ جی ایم صاحب جس طرح ڈرامے کی ایک ایک سطر پر محنت کرتے، اس کردار کو خود پر حاوی کرتے اور پھر کمنٹ کرتے وہ اپنی جگہ کلاسک تھا۔ وہ جس طرح بروٹس سے گلہ کرتے اور اس سے ناراض ہوجاتے تھے وہ مجھے آج بھی تیس پینتس برس بعد بھی نہیں بھولا۔
ہر دفعہ ان کی آواز دکھ سے بھر جاتی کہ بروٹس نے سیزر کو دھوکا کیوں دیا۔ سیزر نے بروٹس کا تو کچھ نہ بگاڑا تھا پھر اسے کیوں سازشیوں ساتھ مل کر خنجر مار دیا۔ سیزر تو اس کا دوست تھا۔ اس کی عزت اور پیار کرتا تھا۔ پھر کیوں؟
کالج کے لان میں سرد دوپہر میں کھلے میدان کے درمیان دو کرسیوں پر بیٹھے اپنے دو شاگردوں کو جب وہ سیزر کا وہ ڈائیلاگ دہراتے You too Brutus تو لگتا پوری دوپہر اداس ہوگئی ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے سب درخت چرند پرند ان کی بروٹس اور سیزر پر گفتگو سن رہے ہیں اور وہ سب بھی سیزر کے انجام پر دکھی ہیں۔ افسردہ ہیں۔
جی ایم صاحب ایک سادہ طبیعت انسان تھے۔ سر پر ہر وقت ٹوپی پہنے رکھتے۔ زیادہ تر سر جھکائے کالج میں چلتے نظر آتے۔ لٹریچر کا ان کی اپنی ذات پر بہت اثر تھا۔ وہ کب کے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں لیکن تیس سال بعد مجھے آج بھی یوں لگتا ہے کہ لیہ کالج کی سردیوں کی کسی سرد دوپہر میں اپنے سوکھے ہونٹوں پر بار بار انگلیاں پھیرتے اور عینک کے اوپر سے اپنے دو خاموش شاگردوں کو جھانکتے جی ایم صاحب بروٹس سے ابھی بھی ناراض ہیں۔ انہیں بروٹس سے شدید گلہ ہے۔ بروٹس سے گہرا شکوہ ہے۔