Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Rauf Klasra/
  3. Hum Ye Kitab Kyun Parhen?

Hum Ye Kitab Kyun Parhen?

شاید میری رائے ہمارے ملتانی شاکر حسین شاکرکے بارے میں biased ہوسکتی ہے کہ جب میں ملتان یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو ہر ہفتے یونیورسٹی بس پر ملتان کینٹ میں واقع ان کی بک شاپ پر جانا میرا معمول تھا۔ وہ کتابوں پر دس پندرہ فیصد رعایت بھی کرتے اور کبھی کبھار مجھے ادھار بھی کر دیتے تھے۔ کوئی جان پہچان بھی نہیں تھی۔ کوئی گھنٹہ ڈیرہ وہاں گزارتا۔ دو تین کتابیں پسند کیں۔ ایک آدھ کے پیسے دیے اور باقی کے ادھار کے لیے کہانی ڈال دی۔ مظلوم سی شکل بنائی۔ آواز میں رقت طاری کی اور کہا سر جی پیسے نہیں ہیں۔ ادھار ہوسکتی ہے؟

ان کے چہرے پر مسکراہٹ ابھرتی۔ کتاب میرے ہاتھ سے لیتے اور اس کی قیمت دیکھتے (شاید اندازہ لگاتے ہوں کتنا نقصان برداشت ہوسکتا ہے) اور میرے ہاتھ میں تھما کر کہتے۔ کوئی بات نہیں۔ کبھی نہ پوچھا کب دیں گے۔

اب انہوں نے اپنی بیٹی کے نام تحریریں لکھی ہیں۔ پہلے میں سمجھا ایک باپ اپنی بیٹی سے محبت کا اظہار کررہا ہے۔ لیکن جوں جوں پڑھتا گیا اس باپ کی محبت کو میں نے اپنے اندر تک محسوس کیا۔ نثر کی خوبصورتی اپنی جگہ لیکن جس انداز میں یہ تحریریں لکھی گئی ہیں انہوں نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے۔ شاکر حسین شاکر کا انداز ملاحظہ فرمائیں۔ کتاب ساتھ ملتانی حلوہ بھیجا۔ کتاب اور حلوہ۔

جب جواہر لعل نہرو انگریزوں کی جیل میں تھے تو انہوں نے اپنی بیٹی اندرا کے نام خطوط کا سلسلہ شروع کیا جو اب دنیا کی بہترین کتابوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔ لیکن مجھے حیرانی ہوئی جب ابھی اندرا گاندھی کی لندن سے خریدی گئی بائیوگرافی پڑھی تو پتہ چلا جن خطوط نے دنیا بھر میں دھوم مچائی تھی وہ خطوط سب نے پڑھے، نہیں پڑھے تو اندرا نے نہیں پڑھے تھے۔

مجھے امید ہے شاکر بھائی کی بیٹی نے یہ سب کچھ پڑھا ہوگا۔ بلاشہ باپ اپنی بیٹیوں سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن شاکر بھائی جیسی محبت کم ہی کرتے ہوں۔ میری بیٹی نہیں تھی تو میں نے عنایہ کو بیٹی بنا لیا۔ مجھے کبھی نہ لگا وہ میری سگی بیٹی نہیں۔ احمد مہد سے زیادہ میری لاڈلی ہے۔ میرے دل سے عنایہ کا ایک جملہ نہیں اترتا۔ چھوٹی تھی تو ایک دن کہتی ہے کاش میں آپ کی سگی بیٹی ہوتی۔ میں نے کہا آپ ابھی بھی میری بیٹی ہیں۔ بولی نہیں پھر میں بہت عیاشی کرتی۔ میں نے کہا وہ تو اب عیاشی کراتا ہوں۔ بولی پھر اور بات ہوتی عیاشی کی۔ چھوٹی سی بچی سے یہ سن کر مجھے دھچکا سا لگا تھا۔ شاید اس کے اندر جھجک تھی۔ اس دن کے بعد عنایہ کا زیادہ خیال رکھتا ہوں۔

شاکر بھائی کی کتاب پڑھتے ہوئے عنایہ ہی میری نظروں کے سامنے رہی۔ میں حیران ہوں بیٹی کو سامنے رکھ کر کوئی اتنے موضوع چن کر کیسے لکھ سکتا ہے بلکہ قلم سے نہیں بلکہ دل کے خون سے لکھ سکتا ہے۔

جو بھی بیٹی کا باپ ہے مجھے یقین ہے وہ اس کتاب کے رومانس سے نہیں نکل سکے گا۔ اس لیے شاکر بھائی نے لکھا ہے اس کتاب کا انتساب انہوں نے خالی چھوڑ دیا ہے، ہر کوئی اپنی اپنی بیٹی کا نام اس خالی جگہ لکھے لے۔ میں نے تو عنایہ کا لکھ دیا ہے۔

About Rauf Klasra

Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran