کل کسی جگہ ایک دوست سے ملنے گیا۔ جہاں اس کا دفتر تھا وہاں پارکنگ مجھے اس بلڈنگ کی چھت پر ملی۔ مجھے علم نہ تھا کہ چھت پر پارکنگ تک اپروچ کیسے کرنی ہے تو اس نے اپنے دفتر کے ایک بندے کو بھیجا جو مجھے لے گیا۔ چھت پر پارک کی اور اب سیڑھیوں کی طرف جانے لگے سامنے اوپر ایک کمرے سے ایک چھوٹی پیاری سی بچی نظر آئی جو کھڑکی میں بیٹھی تھی۔
شاید وہ بچی باہر کے مناظر سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ یہ بھی عجیب احساس ہے کہ آپ اکیلے کھڑکی میں بیٹھ کر دور آسمان کو دیکھتے رہیں، اڑتے پرندوں کو گنتے رہیں۔ اپنے ساتھ باتیں کرتے رہیں اور آپ کو کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ بس آپ ہوں اور آپ کی تنہائی۔
اس سے پہلے مجھے لگا جیسے مجھے کوئی دیکھ رہا ہے۔ میں نے اردرگرد دیکھا تو کوئی نظر نہ آیا۔ خیر پھر محسوس ہوا تو میری نظر سامنے اس کمرے کی کھڑکی پر گئی جہاں وہ بچی بیٹھی تھی۔ جونہی ہماری نظریں ملیں تو اس پیاری سی پانچ چھ سالہ بچی نے پہلے مجھے مسکراہٹ دی اور پھر ہاتھ ہلایا۔
میں نے بھی جوابا مسکراہٹ دے کر ہاتھ ہلایا۔ شاید اس بچی نے کافی دیر بعد کسی بندے کو چھت پر گاڑی پارک کرتے دیکھا تھا لہذا خوش تھی یا پھر موسم کا اثر تھا کہ بادل اور ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی اور مزیدار ہوا چل رہی تھی۔
اس کی مسکراہٹ سے مجھے بچپن میں اماں کی سنائی اس شہزادی کی کہانی یاد آئی جو ایک جن کی قید میں تھی جو بڑے عرصے بعد ایک انسان کو دیکھ کر پہلے مسکرائی اور پھر روئی تھی۔
میں حیران ہو کر اماں سے پوچھتا تھا کہ پہلے وہ ہنسی کیوں اور پھر روئی کیوں؟ اور پھر اماں مجھے سمجھاتی تھیں کہ وہ کیوں ہنسی اور کیوں روئی تھی۔
خیر اس کیوٹ بچی کی مسکراہٹ اور ہاتھ ہلانے سے مجھے 2014 کی وہ شامیں یاد آئیں جب میں امریکی ریاست ڈلیور کے شہر لیوس میں ڈاکٹر عاصم صہبائی کے گھر ٹھہرا ہوا تھا اور شام کو روزانہ اس علاقے میں واک کرنے نکلتا تھا۔ وہاں اس کالونی میں جو بھی بچہ مجھے دیکھتا تو وہ دور سے ہی ہیلو ہائے کرتا، مجھے مسکراہٹ دیتا اور ہاتھ ہلاتا۔ میں پہلے تو جھجک جاتا تھا اور پھر میں نے بھی جوابا مسکراہٹ اور ہاتھ ہلانا شروع کیا۔
آج اس پیاری بچی کی مجھے دی گئی مسکراہٹ دس سال پہلے لے گئی جہاں والدین اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ اجنبیوں کو بھی مسکراہٹ دے کر ہاتھ ہلانا ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں جو بچوں ساتھ واقعات کی خبریں آتی ہیں اس نے یقینا سب کو ڈرا دیا ہے کہ اجنبیوں سے دور رہنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس بچی کو کسی نے مسکراہٹ دینا اور ہاتھ ہلانا سکھا دیا تھا۔ سیڑھیاں اترے ہوئے مجھے گارشیا کا ناول "وبا کے دنوں میں محبت" یاد آیا۔
انسان تمام تر خطرات کے باوجود زندگی میں اجنبی لوگوں سے محبت بھی کرتا آیا ہے اور ان میں مسکراہٹیں بھی بانٹتا آیا ہے۔