آج صبح سویرے ایک ضروری کام تھا۔ وہ ختم ہوا تو دل کیا کہیں بیٹھ کر ناشتہ کیا جائے۔ یاد آیا بڑا عرصہ ہوا لفرلوجی کا سینڈوچ نہیں کھایا۔ اکیلا چل پڑا۔ اب آپ کہیں گے کسی کو ساتھ لے لیتے۔ اکیلا کسی کیفے پر کیا جانا۔ بات تو ٹھیک ہے۔
ایک دوست کو میسج کیا اس نے فرمایا وہ ابھی ابھی اٹھا ہے۔ میں نے کہا گڈ دوبارہ سو جائو۔
شہر میں نظر دوڑائی کس کو بلایا جائے؟ پھر یاد آیا اب حالت یہ ہوچکی ہے ان برسوں میں رپورٹنگ کی وجہ سے آدھا شہر مجھ سے نہیں ملنا چاہتا اور آدھے شہر سے میں نہیں ملنا چاہتا۔ کسی بھی پارٹی یا گیندرنگ میں جائو تو وہاں کوئی نہ کوئی خبر یا سکینڈل کاvictim نکل آتا تھا اور وہ گلہ کرتا اور میں اپنا دفاع تو میزبان بے چارہ پشمان ہو جاتا کہ کس کا ساتھ دے۔ اسلام آباد ویسے ہی چھوٹا سا شہر ہے لہذا متاثرین سکیندلز سے اکثر کہیں نہ کہیں ٹکر ہی جاتے۔ پھر سوشل لائف کم ہوتی گئی۔ ملنا جلنا آنا جانا کم ہوتا گیا۔
شرم بھی آئی کہ یار کوئی بندہ بھی نہیں پورے شہر میں نہیں رہا جس کو بلا کر ساتھ سینڈوچ کھاتے، کافی پیتے۔ بچ بچا کر جنید مہار صاحب ہیں جن ساتھ محفل جمتی ہے۔ وہ اس وقت صبح سویرے اپنے جاب پر ہوتے ہیں۔ انہیں بلانا مناسب نہ سمجھا۔
کیفے میں ویسے بھی اکیلا بندہ اچھا نہیں لگتا۔ شرمندگی اور گلٹی سا لگتا ہے جیسے کوئی غلط کام کرنے آیا ہوا ہے۔
میری ٹیبل سے دور دو دوست لڑکیاں بیٹھی ویٹر ساتھ اس بات پر بحث کررہی تھیں کہ بل کون دے گا۔ ان دونوں نے اپنے اپنے بنک کارڈز نکالے ہوئے تھے اور دونوں کا اصرار تھا کہ وہ بل دیں گی۔ یہ تکرار دیر تک چلی۔
مجھے اچھا لگا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کا بل دینا چاہتی تھیں۔ ورنہ دیکھا گیا ہے اکثر لڑکیاں کہیں جائیں گی تو امریکن سسٹم پر بل ادا کرتی ہیں تاکہ کسی پر بوجھ نہ پڑے۔ جبکہ مرد دوست ایک دوسرے سے بل دینے پر لڑتے ہیں۔
آج پہلی دفعہ دوست لڑکیوں کو بل پر لڑتے دیکھا کہ وہ دے گی۔ بل پر دو فی میل دوستوں کی یہ لڑائی اور بحث کا منظر اچھا لگا کہ دونوں کی کتنی اچھی دوستی ہے اور دونوں کا کتنا بڑا ظرف ہے۔ کھلا دل ہے۔ پیسے خرچ کرنے کا حوصلہ ہے۔ دونوں معاشی طور پر آزاد ہیں جس نے ان کی شخصیت میں خوبصورت اعتماد پیدا کر دیا تھا۔
میں نے خود اپنے بچوں کو یہ سکھایا ہے کہ ہمیشہ کھانے پر دوستوں کے بل دینے میں پہل کیا کرو اور ویٹرز کو مناسب ٹپ دینے میں بھی سستی نہیں کرنی۔
ویسے بھی مرد سخی اور عورت کفایت شعار اچھی لگتی ہے۔