برسوں پہلے جب 2007 میں لندن سے جنگ اخبار کے ادارتی صحفہ کے لیے میں کالم لکھنا شروع کر رہا تھا تو انتہائی قابل احترام محمود شام صاحب جو اس وقت جنگ کے گروپ ایڈیٹر تھے کو کراچی فون کیا اور کہا سر جی مجھے تو کالم لکھنا نہیں آتا۔ اپنی روایتی مروت، ظرف اور درویشانہ انداز میں انہوں نے دھیمے لہجے میں ایک ہی جملہ کہا تھا۔ آپ بس لکھتے رہیں، لکھنا آ جائے گا۔
میرے کالم کا نام "آخر کیوں" بھی محمود شام صاحب نے تجویز کیا تھا۔
ان کی یہ بات میں نے پلے باندھ لی اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دنیا کا کوئی کام مشکل نہیں۔ بس پریکٹس کرتے رہیں۔۔ کام آ جائے گا۔ ایک اور دوست نے کہا تھا کہ اس نے دنیا کے بڑے لوگوں میں ایک چیز مشترک پائی تھی۔ وہ عام لوگوں کی نسبت کسی بھی ایشو کی تفصیل میں جاتے تھے۔ عام آدمی تفصیل میں نہیں جاتا اور بہت جلد چھوڑ دے گا۔
مطلب practice اور details.
خیر مجھے اسٹرلوجی پڑھنے کا شوق ہے۔ دھیرے دھیرے آپ کو بہت ساری باتیں سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
دو دن پہلے ہمارے پی آئی ڈی کے مہربان دوست مقبول صاحب نے ہمارے گینگ ممبران طاہر خوشنود، غلام حیدر، امجد صدیق اور مجھے دوپہر کھانے کی دعوت دی۔ لذیذ پکوڑوں ساتھ پراٹھے اور کریلے قیمے اپنے ہاتھ سے پکا کر کھلائے۔ میں نے بہت کم ایسا لذیذ کھانا کھایا ہوگا۔
خیر وہیں بیٹھے بیٹھے طاہر خوشنود نے مجھے اٹلی کی خاتون وزیراعظم کی فرانس کے صدر میکران کے خلاف کی گئی ڈیرہ منٹ کی ایک تقریر کا کلپ سنایا۔ ایسی پاورفل تقریر میں نے کم سنی ہوگی۔
میں نے ان تینوں دوستوں کو کہا میں اس خاتون کا اسٹار کا بتا سکتا ہوں حالانکہ اس سے پہلے مجھے علم نہ تھا کہ اٹلی کی وزیراعظم خاتون ہیں۔ میں نے کہا بارہ اسٹارز میں سے دو تین بتائوں گا یہ خاتون ان میں سے ایک ہوگی۔
میں نے کہا یہ خاتون سکارپین ہے یا کیپری کارن۔
اس کے نام کو گوگل کیا تو پتہ چلا وہ پندرہ جنوری پیدائش ہے۔ کیپری کارن۔
ان تینوں دوستوں نے مجھے حیران سے دیکھا تمہیں کیسے صرف دیکھ اور سن کر پتہ چلا وہ کیپری کارن ہے؟
میں نے مسکرا کر کہا اس خاتون نے جس طرح صدر کا صرف ڈیرہ منٹ میں پہلے ران کا گوشت کاٹا، پھر باریک باریک قیمہ بنا کر گرم توے پر آگ کی تیز آنچ پر بغیر گھی کے تل دیا یہ کام صرف سکارپین یا کیپری کارن خاتون ہی کر سکتی ہے۔