1970 کی دہائی کا شاید آخری سال ہوگا۔ شام کے سائے ہمارے گائوں کے گھر کے صاف ستھرے صحن میں اتر رہے تھے۔ اماں چولہے پر سالن پکانے کی تیاری کررہی تھی۔ ماموں گھر آئے اور غصے میں اماں کو کہا کچھ خبر بھی ہے۔ تمہارا بیٹا نعیم سگریٹ پیتا ہے۔ ابھی اسے خود رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔ دوستوں ساتھ بیٹھ کر سگریٹ پی رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے سگریٹ چھپانے کی کوشش کی لیکن میں نے بھی جا کر برآمد کر لی۔
نعیم بھائی کو میڈیکل کالج بہاولپور میں پڑھتے ہوئے دو تین سال ہوئے تھے۔ وہ گرمیوں کی چھٹیوں پر گائوں آئے ہوئے تھے۔ گائوں میں کبھی سگریٹ پینا اتنا بڑا جرم سمجھا جاتا تھا کہ آپ سوچ نہیں سکتے۔ سگریٹ پینے والا غنڈہ، موالی، چرسی سمجھا جاتا تھا جو بگڑ گیا تھا۔
اماں بڑے سکون سے کچھ دیر تک اپنے بھائی کو دیکھتی رہیں۔ پھر اپنے بھائی سے پوچھا تمہیں کب سے پتہ چلا ہے نعیم سگریٹ پیتا ہے؟ بھائی بولے ابھی ابھی اسے پیتے پکڑا ہے۔
اماں نے اطمینان سے کہا مجھے دو سال سے پتہ ہے نعیم سگریٹ پیتا ہے۔ اس پر ماموں چھت پر جا لگے کہ تم اچھی ماں ہو تمہیں پتہ ہے تمہارا بیٹا سگریٹ پیتا ہے اور تم نے کبھی اسے کچھ نہیں کہا؟
اماں نے جواب دیا جب نعیم سال میں دو دفعہ گرمیوں سردیوں میں بہاولپور سے گائوں ہمارے ساتھ رہنے آتا ہے تو میں اس کے کپڑے دھوتی ہوں۔ اس کی پینٹ کی جیب میں اکثر تمباکو ہوتا ہے۔ لیکن میں نے نعیم کو کبھی کچھ نہیں کہا۔
وہ ماں کا احترام کرتا ہے۔ ڈرتا ہے اماں کو پتہ نہ چلے کہ وہ سگریٹ پیتا ہے۔ گھنٹوں گھر میں بیٹھ کر سگریٹ نہیں پیتا۔ جب اسے سگریٹ کی طلب ہوتی ہے تو وہ گھر سے باہر چلا جاتا ہے۔ میرے سامنے جرات نہیں کرتا۔ تم چاہتے ہو میں اس کا ڈر یہ کہہ کر ختم کر دوں کہ نعیم مجھے علم ہے تم سگریٹ پیتے ہو۔ اسے شرمندہ کروں۔ باتیں سنائوں۔ وہ سال میں صرف دس بیس دن ہمارے ساتھ گزارتا ہے۔ باقی وہ بہاولپور ہوسٹل رہتا ہے۔ میں کون سا ساتھ ہوتی ہوں۔
میں نے اسے آج کہہ دیا تو وہ دو تین دن شرمندہ رہے گا اور چوتھے دن وہ میرے چولہے کی آگ سے سگریٹ سلگا لے گا کہ چلیں اماں کو جو پتہ چلنا تھا چل گیا۔ اب باہر بہانہ کرکے کیا جانا۔ میں اپنا رعب اور دبدبہ اس پر قائم رکھوں گی کہ وہ ڈرتا رہے کہ اماں کو کہیں پتہ نہ چل جائے۔ اور تم اتنے سیانے ماموں ہو کہ نعیم تم سے احترام یا ڈر میں سگریٹ چھپا رہا تھا تو تم نے یقینی بنایا کہ اس کی چھپائی سگریٹ برآمد کرکے اسے سب دوستوں سامنے شرمندہ کرو اور اس کا خوف یا ڈر ختم کر دو۔ میں نے یہ نہ کیا ہے نہ کروں گی۔ نعیم میرے سامنے سگریٹ پینے سے ڈرتا ہے اور ڈرتا رہے گا۔ تمہیں بھی نظر انداز کرناچاہئے تھا جب وہ تمہیں دیکھ کر سگریٹ چھپا رہا تھا اپنے ماموں کو احترام دے رہا تھا۔
اماں کا یہ خوف نعیم بھائی پر آخری دم تک رہا۔ وہ کبھی بھی اماں سامنے سگریٹ پینے کی جرات نہ کرسکے۔
1992 میں اماں نشتر ہسپتال کے کینسر وارڈ میں آٹھ ماہ زیر علاج رہیں۔ میں اور نعیم بھائی ان کے ساتھ دن رات رہے۔ نعیم نے سگریٹ پینی ہوتی تو مجھے اشارہ کرکے نکل جاتے۔ نعیم بھائی نے عمر بھر خود کو یقین دلائے رکھا کہ اماں کو علم نہ تھا۔ میں نے بھی نعیم بھائی کا یہ یقین کبھی نہ توڑا کہ میرے سامنے ہی اماں اور ماموں کا ان کی سگریٹ پر برسوں پہلے کیا مکالمہ ہوا تھا۔